ٖ دنیا کو ’’مائیکرو چپ‘‘سے کنٹرول کرنے کا منصوبہ وائس آف چکوال (VOC)


تاریخ اشاعت     2020-04-20
تحریر:محمد عبداللہ حمید گل

کوروناوباسے دنیا بھر میں خوف کا ایک ایسی فضابن چکی ہے کہ اس کے آگے ترقی یافتہ ممالک بھی سہمے سہمے دکھائی دے رہے ہیں۔کسی کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ مردہ اور نظر نہ آنے والے وائرس کے اتنے بھیانک اور خوفناک نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے مہلک ترین وائرس کورونا نے ان دنوں امریکہ ‘ برطانیہ ‘یورپ اورایشیاء سمیت پوری دنیا میں تباہی مچارکھی ہے ‘کیونکہ کوئی بھی ملک اب ایسا نہیں رہا ہے‘ جہاں اس موذی اور جان لیوا بیماری کے کیسز رجسٹرڈ نہ ہو رہے ہوں۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق‘ اس نئے وائرس-19 سی اووی آئی ڈی سے متاثرہ مریضوں کی اموات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
عالمی افق پر ابھرتے ہوئے سپرپاور چین میں نہ ہی انفراسٹرکچر کی کوئی کمی ہے اور نہ ہی ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ‘لیکن اس کے باوجود آج اس کے وسطی صوبے کے گنجان آباد شہر ووہان سے جنم لینے والے موذی وائرس کورونانے عالمی دہشت کا روپ دھار رکھا ہے۔عالمی سائنسدان کورونا وائرس کو سارس ( SARS)کی مزید پیچیدہ ترین شکل قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں یہ اسی وائرس کا ایک تسلسل ہے‘ جسے اس صدی کی پہلی دہائی میں مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔کورونا وائرس سے اٹلی‘سپین اور دیگر یورپی ممالک میں سینکڑوں اموات ہو چکی ہیں ‘جبکہ فرانس ‘سوئٹزلینڈ ‘ جرمنی ‘یونان ‘ناروے ‘سویڈن‘ نیدرلینڈزکے علاوہ ایشیائی اور افریقی ممالک میں بھی وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جا رہی ہے ۔
خوف کی علامت کورونا وائرس انسانوں کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کو بھی نگل رہا ہے‘ کیونکہ اس وائرس کے پھیلائوسے دنیا کی کئی بڑی سٹاک مارکیٹس کریش کرگئی ہیں۔ چینی قمری سال کے آغاز کے موقع پر پھوٹنے والی اس وبا سے جہاں عالمی منڈی تباہی سے دوچار ہوئی ہے‘ وہیں تیل کی قیمت رواں سال کی کم ترین سطح تک گر گئی ہے۔ دنیا اس بات سے پوری طرح باخبر ہے کہ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ بھی ان دنوں اپنے عروج پر ہے‘ لیکن کوروناوائرس نے ناصرف چین ‘بلکہ امریکہ کے ساتھ ساتھ دیگر سینکڑوں ممالک کی معیشت پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں۔ عالمی سٹاک مارکیٹس2016ء کے بعد بدترین بحران سے دوچار ہوئی ہیں‘بین الاقوامی سیاحت کو اس سے شدید دھچکا لگا ہے‘جان لیو ا مرض کے بڑھتے خطرات ہرآنے والے دن بین الاقوامی حصص مارکیٹ کیلئے بُری خبر لا رہے ہیں ۔ عالمی سطح پر معاملات جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں‘اس سے طاقت اور دولت کے بدلتے ہوئے معیار اور معاملات کے اثرات بھی وسیع اور گہرے ہیں۔امریکہ دنیا بھر میں اپنی طاقت کا لوہا منوا کر عالمی سیاست اور سفارتکاری میں 6 عشروں سے مرکزی یا کلیدی کردار ادا کرتا آیاہے ‘لیکن اب اس کی بھی تباہی کاسبب وہ بے نام پروگرام ہیں ‘جو ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے اور یقینا یہ غیر معینہ مدت تک مسائل پیدا کرتے رہیں گے۔
عراق کے سابق صدر صدام حسین نے بھی غالباً1990ء میں امریکی سازشوں اور دھمکیوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے اقوام عالم کو متنبہ کیا تھا کہ امریکہ دنیا بھرمیں ایک ایسا وائرس پھیلا سکتاہے ‘جس کے اثرات سے شاید ہی کوئی بچ پائے گا‘لیکن یہ حسن اتفاق ہے کہ فی الحال کو رونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض امریکہ کے اندر ہی ہیں اور بعید نہیں کہ یہ بہت جلددیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں۔ بل گیٹس نے بھی اپنے اندازوں کی بنیاد1918ء میں پھیلنے والے فلو پر رکھی تھی‘ جس میں 3 کروڑ سے زائد لوگ لقمۂ اجل بنے تھے ‘یہاں یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ جس مصیبت کو گزرے تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزرچکا تھا‘ اس کے ایک دہائی کے اندر لوٹ کر آنے کی بات کیسے کردی گئی؟ان کا اس سنجیدہ معاملے پر قبل ازوقت خبردار کرنا لمحۂ فکریہ سے کم نہیں ۔
چین میں جیسا کہ اس وائرس پر قریبا ًمکمل کنٹرول کر لیا گیا ہے‘ ایسے میں بل گیٹس کااب ایک مرتبہ پھر سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا کہ یہ مرض یکدم دوبارہ سے پھیل سکتا ہے‘ سوالیہ نشان ہے؟یہی وجہ ہے کہ ہر طرف اب خوف و ہی جان پیدا کرکے ا یسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ جان لیوا مرض کبھی ختم ہی نہیں ہوگا ۔میڈیا میں یہ بات بار بار ذہن نشین کرائی جا رہی ہے کہ سماجی دوری سے کورونا سے بچا جا سکتا ہے‘ لیکن کہیں بھی یہ نہیں بتایا جا رہا کہ اس موذی وائرس کا خاتمہ کیسے ہو گا؟اس بات سے تویہی ثابت ہوتاہے کہ خوف کو اس وقت تک برقرار رکھا جائے گا ‘جب تک کہ تمام انسانوں میں مائیکرو چپ نصب نہیں کر دی جاتی ۔ اب‘ شاید یہ وہی وقت آن پہنچا ہے‘ جس کا قرآن مجید میں ذکر موجود ہے کہ دجال ہر شخص کے ماتھے یا ہاتھ پر ایک نشان لگا دے گا‘ جس کا عدد666ہوگا ‘جتنی بھی ٹیکنالوجی اس وقت موجود ہے‘ کوئی بھی بار کوڈ اٹھا کر دیکھ لیں تو اس میں 6کا ہندسہ 3 بار موجود ہوتا ہے اور جب یہ ویکسین مارکیٹ میں آئے گی اور جس کے ہاتھ پر نشان نہیں ہوگا‘ لوگ اس سے ڈریں گے اور معاشرہ اسے '' Secret Career ‘‘کا نام دے کر اتنا ستائے گا کہ مجبوراً اسے بھی ویکسین لینی ہی پڑجائے گی ۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی کے سوشل میڈیا پر نشر کئے گئے ویڈیو پیغام جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وائرس کی علامات نہ ہونے کے باوجود بھی ان کا رزلٹ مثبت آیا ہے ‘کا اگربغور جائزہ لیا جائے تو لوگوں کی آہستہ آہستہ ذہن سازی کی جارہی ہے کہ اگر آپ میں کورونا وائرس کی علامات نہیں بھی تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ میں کورونا وائرس نہیں اور یہ آپ کی وجہ سے کسی اور کو بھی لگ سکتاہے۔ امریکہ میں پچھلے کئی برس سے اس کی کوشش کی جارہی ہے۔ کسی طرح انسانوں کے ہاتھوں میں مائیکرو چپ نصب کردی جائے ‘یعنی آرایف آئی ڈی چپ کے ذریعے ہی سماجی معاملات سرانجام ہوں گے‘ مثلاً بینک اکائونٹ ‘کاروبار ‘ ب فارم سب کچھ اسی چپ کے ذریعے ہوگا ‘کسی کو جیب میں پیسے لے کر گھومنے کی ضرورت نہیں پڑے گی‘جبکہ ناروے اور سویڈن میں تو اس ٹیکنالوجی پر عملدرآمد ہو رہا ہے اور وہاں کچھ عرصے سے لوگوں کے جسم میں مائیکرو چپ نصب کی جا رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ‘ یہ جِلد کے نیچے نصب ایک چھپی ہوئی چھوٹی سی مائیکرو چپ آپ کے روزمرہ استعمال کے کارڈز‘ چابیاں اور پرس کھو جانے سے بچنے میں مدد فراہم کرے گی اور اس نئی تبدیلی کو '' سمارٹ پیپل ‘‘ کا نام دیا گیا۔یہ چپ شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے بیچ میں نصب کی جاتی ہے اور اس کی مدد سے صارفین اپنی کار سٹارٹ کر سکتے ہیں‘ انہیں بس‘ ٹرین یا ٹرام کا کرایہ ادا کرنے کیلئے پرس کی ضرورت نہیں ہوگی۔صرف مخصوص مشین پر ہاتھ پھیرنے سے ادائیگی ہو جائے گی اور اس طرح کے کئی دیگر کام باآسانی کیے جا سکیں گے۔
یہ نئی تبدیلی بائیو ہیکنگ کے بڑھتے رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔ بائیو ہیکنگ کا ذکر ایسے ماہرین حیاتیات کی نشاندہی کیلئے کیا جاتا ہے‘ جو زندگی کو سہل اور آسان بنانے کیلئے جسم میں الیکٹرانک ہیراپھیری کرتے ہیں‘ جسم میں چپ کی تنصیب کے عمل کو بھی بائیو ہیکنگ سے جوڑا جا رہا ہے‘جبکہ برطانیہ میں اس کی سب سے بڑی کاروباری ایجنسی ٹریڈ یونین نے برطانیہ بھر میں سکیورٹی اور انتظامی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے ملازمین میں مائیکرو چپ لگانے پر تشویش کا اظہار کیاہے تاہم ''کوانٹم ڈاٹ ٹیٹوز ‘‘جن کو بل گیٹس '' ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ‘‘ کہہ رہے ہیں‘یہ بنیادی طور پر شوگر ز کی سوئیاں ہیں‘ جس کے اندر ویکسین ہے اور Fluorescence Copper Based Quantum Dots Embeddedہیں ‘جوکہ بہت ہی چھوٹے مائیکرو کیپسول ہیں‘ ان سے آسانی سے دوا یا ویکسین کشید کرکے اسے جسم میں داخل کیا جاسکتا ہے اور جیسے جیسے ویکسین جسم میں اترتی جاتی ہے‘ ویسے ویسے اس کا ریکارڈ کوانٹم ڈاٹس میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ دراصل یہ ایسی ویکسین ہے‘ جو انسان کے اندر لگائی جائے گی اور اس سے ہو گایہ کہ انسان کی جلد کے اوپر ایک قابل ِشناخت ٹیٹو بن جائے گا‘ جس کو کسی سکینر سے دیکھا جا سکے گا اور اسے چیک کر کے حتمی نتیجہ اخذ کیا جا سکے گا کہ کس نے ویکسین لی ہے اور کس نے ویکسین نہیں لی ۔یہ ٹیٹو پوری دنیا میں بل گیٹس کی فائونڈیشن کے ذریعے سپلائی کیا جائے گا‘اس پراجیکٹ پر بہت پہلے سے کا م ہو رہا ہے اور اس پراجیکٹ کو آئی ڈی 2020ء نام دیا گیاہے۔
حقیقت میں کوانٹم ڈاٹ ٹیٹوز نظام کسی بھی شخص کی ویکسین کی تاریخ کو نوٹ کرتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے بتاتا ہے کہ کب اورکیسے ویکسین دی گئی ہے‘لہٰذا خاص طور پر اس ایجاد کا مرکز غریب ممالک کی عوام کو بنایا گیا ہے ۔یاد رہے کہ مائیکروسافٹ نے یہ پراجیکٹ اس لئے بنایا تھا کہ جن کے پاس آئی ڈی کارڈ نہیں۔ اس وقت پوری دنیا میںقریباً ایک بلین سے زائد لوگ ہیں‘جن کی کوئی شناخت نہیں‘ تو یہ ان شناخت دے گا ۔ مائیکرو سافٹ نے چار اور کمپنیوں کے ساتھ مل کر آئی ڈی 2020ء Sustainable Development Goals (SDGs) کو اقوام متحدہ میں شامل کروایا ہے اور اقوام متحدہ ان کی سرپرستی کررہی ہے۔ اقوام متحدہ بھی یہ چاہتی ہے کہ پوری دنیا کے انسانوں میں مائیکروچپ نصب کردی جائے ۔مائیکر و سافٹ کے ساتھ جو مزید چار کمپنیاں ہیں ‘جو اس گھنائونے اور انتہائی خطرناک کھیل میں شامل ہیں‘ وہ یہ چار کمپنیاں ہیں؛ (Accenture)‘ (Gavi)‘(Rockefeller Foundation)اور (IDEO.Org)۔یہ وہ کمپنیاں ہیں ‘جو اس پراجیکٹ پر کام کررہی ہیں۔The Rockefeller Foundation ایلومیناتی کی 13بلڈ لائنز کے نام میں سے ایک بلڈ لائن کا نام ہے ۔ بل گیٹس اس پر کافی عرصہ سے کام کررہے ہیں ‘جبکہ آنے والے کچھ عرصہ بعد کوئی بھی بغیر مائیکروچپ کی خریداری نہیں کر سکے گا ۔
بل گیٹس کی سوچ یہیں تک محدود نہیں اور نہ ہی وہ آسان اور عام چیزوںکو اس وقت دیکھ رہا ہے‘ کیونکہ پچھلے 6برس سے گیٹس فائونڈیشن ایک اور پراجیکٹ کو فنڈنگ کر رہی ہے‘ جس میں انسان کے اندر مائیکرو چپ لگائی جائے گی ‘یہ پراجیکٹ( MIT) Massachusetts Institute of Technologyکی بنیاد پر کیا جارہا ہے ‘ جس کا مقصدخواتین میں بچہ پیدا کرنے والے ہارمونز کو کنٹرول کرنا ہے‘ تاکہ برتھ کو کنٹرول کیا جاسکے ‘جس کو مائیکر برتھ کنٹرول چپ کا نام دیا گیا ہے ۔بل گیٹس انسانی آبادی کو کم کرنے کے مختلف طریقوں پر سب سے زیادہ کام کرنے میں مصروف ہیں۔010 2 ء میں امریکا کی میڈیا تنظیم ''ٹی ای ڈی‘‘ (ٹیکنالوجی‘ انٹرٹینمنٹ ڈیزائن) کے زیراہتمام کیلیفورنیا میں ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے‘ انہوں نے دنیا کی آبادی کم کے حوالے سے اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''دنیا کی آبادی اس وقت 6 ارب 8 کروڑ ہے‘ جو قریباً 9 بلین ہونے کی طرف گامزن ہے۔ اب ‘ اگر ہم نئی ویکسین‘ حفظان صحت اور تولیدی صحت کے ساتھ کچھ نیا کریں تو ہم اسے شاید 10سے 15 فیصد تک کم سکتے ہیں‘‘ ۔ بی ایم جی ایف بھارت اور پاکستان میں بچوں کو پولیو ویکسین کی بڑے پیمانے پر جاری مہم کو بھرپور مالی معاونت فراہم کرتی ہے اور فاؤنڈیشن ان دونوںممالک سے پولیو کے مکمل خاتمے کو اپنا مقصد باور کراتی ہے‘ اس مہم میں بچوں کو پولیو ویکسین کی 2 قسموں میں سے ایک ''او پی وی‘‘ دی جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ گیٹس فائونڈیشن کی کی پولیو ویکسی نیشن مہم کے باعث ہزاروں کی تعداد میں(AFP) Flaccid Paralysis Acuteکے کیسز سامنے آئے۔ اے ایف پی کا مرض جسم میں قوت ِمدافعت گھٹانے اور معذوری کا سبب بنتا ہے۔
بھارتی ریاستوںمیں قدیم قبائل کے تیس ہزار بچوں پر ایچ پی وی ویکسین آزمائی گئی‘ جن میں سے بہت سے بچے بیمار ہوگئے اور ان میں سے متعددکی موت واقع ہوگئی ‘جبکہ متاثرہ بچے بانجھ پن کا شکار بھی ہوگئے۔ترقی یافتہ ممالک میں اب یہ ذہن سازی کی جا رہی ہے کہ سب سے محفوظ طریقہ ڈیجیٹل ادائیگی ہی ہے‘ چاہے بجلی کے ہوں یا گیس کے بل وغیرہ ڈیجیٹل طریقہ سے ادا کرنے چاہئیں ‘لہٰذا اب یہ ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داری اور فرض بنتا ہے کہ اس مصیبت سے قوم کو محفوظ رکھا جائے۔ پاکستان میں قطعی طور پر ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ لازم نہیں ہونا چاہیے کہ لوگوں کو ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ دئیے جائیں‘اگر کورونا وائرس کی ڈیجیٹل سرٹیفیکیشن دینی بھی ہے تو وہ سمارٹ فون یا ہمارے آئی ڈی کارڈ پر موجود چپ کے ذریعے دی جائے ۔ آئی ڈی کارڈ کے ذریعے ہی سکین کرکے پتا چل سکتا ہے کہ اس شخص کو ویکسین لگی ہے یا نہیں؟
امریکا میں 2016 ء میں ایسی کوشش کی گئی تھی تو وہاں کے مسیحی پارلیمنٹرین نے اس کو آڑے ہاتھوں لیا تھاکہ ہم کسی صورت یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ انسانوں کے جسموں پر''Mark of the beast ‘‘ لگائے جائیں ‘کیونکہ یہ حرام ہے‘ لیکن اب پھر سے یہ پوری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔بل گیٹس اس قدر دولت مند ہیں کہ وہ اپنی دولت کا اگر37 فیصد حصہ دے دیں تو دنیا سے بھوک کا خاتمہ ہوجائے‘ مگر انہوں نے براہِ راست بھوک اور افلاس مٹانے پر رقم خرچ کرنے کی بجائے ایسی کارپوریشنوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بل گیٹس کا سرمایہ ایسی 69 کمپنیوں میں ہے ‘جو امریکہ اور کینیڈا میں آلودگی بڑھانے میں سب سے آگے ہیں۔ ان میں ڈاؤ کیمیکل بھی شامل ہے۔یہ کمپنی ان ادویہ ساز کمپنیوں کے کاروبار میں حصہ دار ہے‘ جن کی ایڈز کیلئے بنی دوائیں اپنی گراں قیمت کے باعث دنیا بھر کے غریب ایڈز کے مریضوں کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔۔کورونا وائرس کا چکمہ دے کر آج دنیا کے معاشی نظام کو تباہ کیا جارہا ہے۔ایک ایک کرکے تمام ممالک کی آزادی پر شب خون مارا جا رہا ہے۔یہاں یہ بات قابل ِغور ہے کہ آج جو کچھ ہورہا ہے‘ اس کے صحت پرکم‘ لیکن معاشی زندگی پر بہت طویل اثرات ہوں گے‘ کیونکہ بھوک و افلاس کے اس گھنائونے کھیل میں کوئی چھوٹا کاروباری نہیں بچے گا؛حتیٰ کہ درمیانے درجہ کا کاروباری بھی شدید متاثر ہوگا‘ اگر کوئی بچے گا تو بڑی بڑی کارپوریشنز بچیں گی‘ جو ہر چیز کی مالک ہیں۔کورونا وائرس سے بچاؤ کی خاطرلوگوں کو'' قرنطینہ‘‘ میں پہنچ کر یہ احساس ہوگا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا ۔عوام کو گھروں میںمقید کر کے خود ساختہ ڈپریشن کا شکار کر دیا گیاہے۔مصنوعی طور پر بے روزگاری کو جنم دیا جارہا ہے ۔
کہا جارہا ہے کہ سونا اور کیش کو آپ کی زندگیوں سے نکال دیا جائے گا‘ کیونکہ اسے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس پر کوئی سیریل نمبر لگ سکتا ہے‘ جس کا تعاقب کیا جا سکے۔اب ‘یہ منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ آپ پیسہ کہاں پر خرچ کرتے ہیں‘ تاکہ مناسب وقت پراس کو قابو کیا جا سکے۔ یہاں سوال بہت اہم ہے کہ کورونا پر کنٹرول حاصل کرلینے کے بعد کیا اشرف المخلوقات انسان ‘ انسانیت کے احساس کو اپنے میں باقی رکھ پائے گا؟کیا اس کے اندر سے دولت جمع کرنے کی حرص کم ہو پائے گی؟کیا اس سے انسانیت کو کوئی سبق حاصل ہو گا؟

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top