تحریر
راجہ افتخار احمد
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں شہباز شریف کے پنجاب بھر میں اچانک دوروں کا سلسلہ جاری ہے نجانے وزیراعظم صاحب کی چکوال یاترا کب ہونی ہے کل بھی دورہ متوقع تھا مگر وہ نہ آئیں جن کا انتظار تھا
انہیں اچانک دوروں کے تناظر میں بلدیہ چکوال ضلعی انتظامیہ قانون نافذ کرنے والے ادارے آج دوسرے روز بھی
صبح سویرے ہی محترک دکھائی دیتے ہیں شہر بھر میں صفائی کا عمل جاری ہے سڑکوں پر چونا ڈالا جا رہا ہے پانی کا چھڑکاؤ بھی جاری ہے ٹریفک پولیس کے اہلکار و افسران مختلف پوائنٹ پر چوکس دکھائی دیتے ہیں اور آٹے کے شہر میں بنے مختلف پوائنٹ پر سورج کی کرنیں نمودار ہونے کے ساتھ ہی رش دکھائی دے رہا ہے راقم ابھی اخبار مارکیٹ سے واپس آیا تو جدھر نظر اٹھی ادھر ہی مرد و خواتین آٹے کے تھیلے سروں پر رکھے نظر آئیں
مفت آٹا دینے پر کسی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے مگر آپ پاکستان بھر میں سروے کروا لیں اس عمل کی اگر کوئی مخالفت نہیں کر رہا تو تعریف بھی نہیں کر رہا اس کی جو وجہ سمجھ آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ آٹا ایک ایسی چیز ہے کہ یہ صرف رمضان المبارک میں تو نہیں استعمال ہوتا بلکہ یہ زندگی سے لازم و ملزوم ہے کیا رمضان کے بعد عوام آٹے کے استعمال کو ترک کر دے گی عوام اگر گیارہ مہینے اوکھے سوکھے ہو کر آٹا خرید لیتی ہے تو پھر صرف ایک مہینے میں اس اربوں روپے کی سبسڈی کا کوئی مقصد نہیں بنتا
میں اپنے گزشتہ کالم میں بھی لکھ چکا ہوں کہ عوام کو بھکاری نہ بنایا جائے عوام کو مانگنے پر نہ لگایا جائے عوام کی خودداری کو نہ سلایا جائے بلکہ عوام کو منحت مشقت کرنے پر لگایا جائے
بدقسمتی سے موجودہ وزیراعظم اور سابق وزیرِِاعلٰی پنجاب کی سوچ میں جو چند ایک چیزیں بیٹھ چکی ہیں وہ اس سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے
میاں شہباز شریف صاحب جب وزیراعلی پنجاب تھے تو انہوں نے سستی روٹی سکیم کا اجرا کیا تھا اور اس سکیم پر بھی قوم کے اربوں روپے خرچ کر دیے گئے تھے اور اس وقت بھی یہ چرچے زبان زدہ عام تھے کہ غیر ملکی تندرو والوں نے اس سکیم سے فاہدہ اٹھایا مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا کیا عوام آج خوشحال ہو چکی ہے کیا آج روٹی سستی ہو چکی ہے بلکہ اس وقت روٹی 5 روپے کی تھی آج 25 کی ہو گئی ہے اربوں روپوں کی سبسڈی دینے کے بعد آج بھی عوام آٹا آٹا کرتی دکھائی دیتی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اربوں روپے برباد کر دیے گئے ہیں
وزیراعظم شہباز شریف صاحب کو جدید دور کے ساتھ اپنی سوچ بدلنی ہو گی اس اربوں روپے کی سبسڈی کے بجائے عوام کو چھوٹے چھوٹے مستقل بنیادوں پر کاروبار بنا کر دیے جائیں جس سے وہ صرف ایک مہینہ نہیں بلکہ سارا سال کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے
سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرز سیاست سے لاکھ اختلاف ہے میں کھبی بھی انکی طرز سیاست کا مداح نہیں رہا مگر انکی سوچ کے ایک حصے کا میں قدردان ہوں کہ انہوں نے اپنے مختصر دور حکومت میں عوام کو ایک منحت کش قوم بنانے کی کوشش ضرور کی تھی جیسا کہ انہوں نے غریب افراد اور متوسط گھرانوں کو ایک ایک بھینس دینے کا آغاز کیا تھا اس کے ساتھ ساتھ گھروں میں مرغیاں پالنے کے لیے سہولیات اور امداد کا آغاذ کیا تھا مگر بہت سے لوگوں نے انکا مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ عمران خان عوام کو مرغیاں کٹے بھینس کے پیچھے لگا رہا ہے
مگر باشعور لوگ اس وقت بھی سمجھتے تھے کہ عمران خان صاحب قوم کو کام پر لگانا چاہتے ہیں غریب لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار بنانے کے لیے سہولیات دینے کا مقصد بھی یہیں تھا کہ یہ منحت کرکے اپنے پاؤں پر مستقل بنیادوں پر کھڑے ہو سکیں مگر کیونکہ ہماری عوام کو ایک عرصے سے سبسڈی کی لت لگی ہوئی ہے اس لیے یہ بھی منحت مزدوری اور کام چور ہوتی جا رہی ہے
وزیراعظم شہباز شریف صاحب اب بھی وقت ہے یہ سبسڈی والا آپشن ہی اپنی ڈکشنری سے ختم کر دیں عوام کی خودداری کو بحال کریں قوم کے ٹیکسوں کے پیسے سستی روٹی سستا آٹا جیسی وقتی فاہدے والی سکیموں میں نہ جونکھے قوم کو لائنوں کے بجائے کام پر لگائیں اور اپنے پاؤں پر کھڑا کریں
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.