ٖ انصاف وہی ہوتا ہے جو فوری ہو وائس آف چکوال (VOC)
ہیڈ لائن

2:26 PM استاد کا احترام

میں ساتویں جماعت میں پہنچا تھا جب جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاء لاگو کرکے ریاست پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی، پاکستانی جنرلوں میں جنرل ضیاءالحق ان فہرست میں خاص قدر و منزلت میں دیکھے جاتے تھے جو دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ رغبت میں دیکھے جاتے ہیں ایسے جنرل پنج وقتہ نمازی ہونے کے ساتھ ساتھ قانون شریعت کو فالو کرتے ہوئے اپنے احکامات میں شامل کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ دینی رغبت کے سبب کفار و مشرکین ترقی یافتہ ممالک پاکستان اور پاکستانی جنرلز سے خوفزدہ رہتے تھے ۔

بات یہی نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے میں چھپی گند کو بھی نچوڑ ڈالا ظالموں گمراہ کن لوگوں شری اور بدمعاشوں کو سیدھا کردیا تھا مجھے یہ لکھتے ہوئے فخر محسوس ہورہا کررہا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی ماں نے جنرل ضیاء الحق جیسا شیر پھر کبھی نہیں جنا۔۔۔

لیفٹیننٹ جنرل(ر) فیض علی چشتی کہتے ہیں کہ1977 عیسوی کے آخری دنوں کی بات ہے مارشل لاء کے نفاذ کو چند ماہ گزارے تھے، معمول کیمطابق جب میں دفتر گیا اور اخبارات دیکھنا شروع کئے تو وہاں مخصوص خبروں کی نشاندہی کی گئی تھی، ایک خبر پر سرخ دائرہ لگا ہوا تھا۔ اس خبر کیمطابق گلبرگ لاہور کے تاجر احمد داؤد کے اکلوتے کمسن بیٹے اعجاز عرف پپو کو اغوا کرکے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔

 میں نے اسی وقت جنرل ضیاء کو جی ایچ کیو میں ٹیلیفون کیا اور ان سے دریافت کیا کہ سر! آپ نے اخبار دیکھا؟ ان کا جواب نفی میں تھا، میں اخبارات لے کر جی ایچ کیو میں ان کے دفتر پہنچ گیا اور ان سے کہا کہ مارشل لاء کے دوران بچے کا اغوا اور قتل مقام افسوس ہے، اس طرح عوام کا اعتماد اٹھ جائیگا۔ 

جنرل ضیاء الحق نے میرے سامنے ہی پنجاب کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل محمد اقبال کو ہدایات جاری کیں کہ مجرموں کو فوری پکڑا جائے چنانچہ پولیس حرکت میں آئی، تفتیش شروع ہوئی تو گھرکا ڈرائیور ہی مجرم نکلا، جس نے 18 دسمبر 1977کو اپنے پانچ  ساتھیوں کیساتھ بچے کو اغوا کیا تھا۔ گرفتاری کے بعد ملزموں کا فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اور فوری فیصلہ سنایا گیا جس میں تین مجرموں کو سزائے موت اور تین کو قید کی سزا سنائی گئی۔

 مجرموں کو نشان عبرت بنانے کیلئے ملکی تاریخ میں پہلی بار سرعام پھانسی کا فیصلہ کیا گیا جس کیلئے23 مارچ 1978کی تاریخ مقررکی گئی۔ کیمپ جیل لاہور کے باہر خاص طور پر پھانسی کے تختے بنائے گئے تھے۔ ایک اندازے کیمطابق پانچ لاکھ افراد پھانسی کا یہ منظر دیکھنے امڈ آئے۔ شام کے پانچ بجے مجرموں کو پھانسی دے دی گئی لیکن انکی لاشیں لٹکتی رہیں اور انکو شام کا اندھیرا ہونے کے بعد اتارا گیا۔

 اس سزا کا نتیجہ یہ ہوا کہ مارشل لاء کے دور میں اس نوعیت کا واقعہ پھر کبھی پیش نہیں آیا، زیادتی اور قتل کے مجرموں کی پھانسی کے وقت جنرل ضیاء الحق شہید کے تاریخی الفاظ یہ تھے انصاف وہی ہوتا ہے جو فوری ہو ۔

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

:) :)) ;(( :-) =)) ;( ;-( :d :-d @-) :p :o :>) (o) [-( :-? (p) :-s (m) 8-) :-t :-b b-( :-# =p~ $-) (b) (f) x-) (k) (h) (c) cheer
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top