ٖ ضمیر کے ساتھ دغا وائس آف چکوال (VOC)


تحریر ڈاکٹر زاہد عباس چوہدری 

ہر بات کی تہہ میں ایک بات ہوتی ہے اور وہی اصل بات ہوتی ہے مگر یہ الگ بات کہ بعض پرت ساری زندگی نہیں کھلتے اور کچھ باتوں سے جلد پردہ سرک جاتا ہے . میں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز روزنامہ اساس روالپنڈی میں بطور نامہ نگار 1999 سے کیا تو لگا کہ یہ کیسی دنیا ہے جس میں قدم ڈال دیا ہے, ہر جگہ پروٹوکول کے ساتھ بن بلائی مصیبتیں منہ زور گھوڑے کی طرح سامنے آ جاتی ہیں.  پہلے پہل عجیب سا لگتا تھا مگر پھر ہم نے اس سمندر کی گہرائی کو ماپنا شروع کیا تو تہہ در تہہ پرت اور گرہیں  کھلتی گئیں اور  معلوم ہوا کہ بلا شبہ یہ ایک پیغمری مشن ہے لوگ اپنے مسائل اور مصیبتیں ہمارے گلے ڈال دیتے ہیں اور ہم ہنس کر نہ صرف انہیں گلے سے لگاتے ہیں بلکہ لوگوں کے مسائل اور ان کے حقوق کے لیے ہمارے ساتھ مارکٹائی اور جھوٹے مقدمات جیسے حربے بھی آزمائے جاتے ہیں نامہ نگار سے اپنے ذاتی اخبار کے چیف ایڈیٹر اور ملک کے متعدد قومی اخبارات میں ایک مستند کالم نگار کا کٹھن سفر کس طرح گزرا یہ بھی ایک لمبی داستان ہے جس پہ انشاء اللہ  بشرط زندگی کبھی قلم کشائی کریں گے مگر اس مضمون کا مقصد کچھ اور ہے جو آگے چل کے بیان کرتا ہوں. 
صحافت کے اوائل میں کچھ لوگوں نے جن میں کچھ سیاستدان اور محکمہ پولیس کے افسران شامل تھے  مختلف حربوں سے ہمارے صبر کو بھی بہت آزمایا مگر ہم بھی دھن کے پکے تھے راستے میں آنے والی تمام پریشانیوں اور رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور  مقام شکر ہے کہ ہم نہ صرف اپنے فرائض بخوبی سر انجام دیتے رہے بلکہ عام لوگوں کی توقعات پر پورے اترے
  بیس سالہ صحافتی زندگی میں کسی سے خبر کے دو چار سو روپے لینا بھی گوارا نہ کیا جب صحافت کو عبادت سمجھا تو پھر  اس سے کمانے کی توقع ختم کر دی اور بس لگے رہے خدمت خلق میں جہاں تک ممکن ہو پایا.  وہ بھی کیا صحافتی دور تھا سارا دن تقریبات میں شامل ہونے کے بعد اپنے ہاتھ سے خبریں لکھنا,  پھر کمپوزنگ کروانا اور کے پیسٹنگ کروا کے اخبار کی کاپی پریس میں پہنچانا رات گئے گھر لوٹنا اور صبح منہ اندھیرے پھر 30 کلو میٹر کا سفر طے کر اخبار کا بنڈل لینے چکوال پہنچ جانا اور  پھر نئے سرے سے اسی کام میں لگ جانا بہت ہی مشکل ترین کام تھا مگر ہم نے اپنے کام سے پورا پورا انصاف کیا اور ہمارے دوستوں نے ہمارا بہت ساتھ دیا اللہ تبارک و تعالی' ان سب کی مشکلیں آسان کرے۔

 کالم کے اصل مقصد کی طرف آتے ہیں مذکورہ بالا تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ صحافت جسے ملک کا چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے آسان نہیں ہے ایک سچے اور کھرے صحافی کو ان تمام مسائل سے گذرنا ہی پڑتا ہے. 
صحافی پہلے ہوتا ہے اور تنظیمیں بعد میں وجود آتی ہیں چکوال کے پریس کلبوں کی یہ حالت کس سے بھولی ہوئی ہے کہ غیر صحافی لوگ نہ صرف ان کا حصہ ہیں بلکہ مختلف عہدوں پر بھی براجمان ہیں.  ایسے لوگ جن کا نہ تو کسی اخبار سے تعلق ہے اور نہ میڈیا سے.... پریس کلبوں میں گھسے ہوئے ہیں مگر ان کے اصل کام اور معاملات کچھ اور ہیں جن پر یہاں بات کرنا مناسب نہیں.  میں ذاتی طور پر کسی تنظیم کا حصہ بننا پسند نہیں کرتا وفاق میں کچھ صحافتی تنظیوں سے میرا تعلق رہا ہے اور اب بھی ہے, وہاں معاملات کچھ بہتر ہیں مگر چکوال میں ایسے کسی بھی ادارے میں رہنا جس کے آددھے سے زیادہ ممبران صحافی ہی نہ ہوں اس میں بطور ممبر رہنا میں صحافت کی توہین سمجھتا ہوں یہی وجہ ہے کہ میں نے تحصیل پریس کلب چکوال کے الیکشن میں نہ صرف اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کروں گا بلکہ میں اس ادارے سے جس میں  4 درجن ممبران میں سے ایک درجن بھی صحافی نہیں ہیں اپنی لا تعلقی کا اعلان کرتا ہوں.  میں ایسے ادارے میں رہ کر اپنے ساتھ اور اپنے "ضمیر کے ساتھ دغا" نہیں کر سکتا. اللہ سب کا حامی و ناصر ہو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا... بندہ ناچیز 

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top