ابھی ایک پارک میں بیٹھا چائے پی رہا تھا تو ایک بچہ میرے پاس آیا ۔کہتا ہےچاچو ایک کال کرنی ہے , میں نے
پوچھا کسے کرنی ہے ؟
تو کہتا وہ ریسکیو والوں کو، پتا نہیں کیا نمبر ہے انکا 1222۔
میں نے کہا ہاں 1122 نمبر ہے انکا لیکن خیریت؟ کیوں کرنی ہے۔
تو کہتا چاچو وہ سامنے درخت پر ایک پرندہ کل سے اٹکا ہوا ہے لیکن زندہ ہے میں نے خود درخت پر چڑھ کر بھی اتارنے کی کوشش کی لیکن نہیں اتار سکا کیونکہ اونچا بہت ہے اور وہ بری طرح اٹکا ہوا اس میں ۔
میں نے عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا تو 1122 کیا کرے گی ؟
کہتا چاچو پہلے بھی ایک دن ایسا ہوا تھا تو ہم نے کال کروائی تھی وہ اپنی بڑی گاڑی پر آئے تھے اور اتار کر گئے ۔
میں حیران ہوا ۔۔ اور یہ بھی سوچا کہ چھوٹا سا بچہ ہے اسے غلطی فہمی ہوئی ہو گی ۔۔۔ لیکن اس نے ساتھ ہی پوچھا ۔
چاچو آپ کر رہے ہو یا کسی اور سے کرواؤں ؟
میں نے کہا اچھا کرتا ہوں ۔۔ اور نمبر ڈائل لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ دو دفعہ ڈائل کرنے کے باوجود رابطہ نا ہو سکا تو میں نے اسے دیکھایا کہ بیٹا یہ دیکھو دو دفعہ ڈائل کیا لیکن رابطہ نہیں ہوا۔
وہ پریشانی میں چلا گیا لیکن اسے سکون نا آیا اور پتا نہیں اور کس سے جا کر کال کروائی ۔
میں نے ابھی چائے پی کر کپ رکھا تو سامنے سے پارک میں ریسکیو کی گاڑی آتی نظر آئی ۔
بس پھر حیران تھا اور خوش بھی کہ ایک چھوٹے بچے میں موجود احساس نے اسے سکون سے نا بیٹھنے دیا اور وہ دو دن کی محنت کے بعد اس پرندے کو آزاد کروانے میں کامیاب ہو گیا ۔۔۔ اور دوسری خوشی اس ادارے کو دیکھ کر ہوئی ۔۔ اللہ انہیں اسکا اجر دے۔۔آمین
یہ اسی ریسکیو کی تصویر ہے جو ابھی سامنے بیٹھے ہوئے لی اور آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کر دی ۔
اپنے اندر یہ احساس پیدا کریں اگر یہ احساس مر گیا تو سمجھو انسانیت مر گئی اور اگر انسانیت مر گئی تو پھر کیا فائدہ ایسے جینے کا۔پھر ایک زندہ لاش ہیں ہم۔
منقول
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.