![]() |
تحریر: انوارالحسن شاہ چکوالی
|
سن 1949 میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا ۔یہ زمین راجہ سرفراز خان کی ملکیت تھی۔ انکا علم دوستی کا یہ قدم آج چکوال میں تعلیمی انقلاب لا چکا ہے۔چکوال کی اس قدیم تعلیمی درسگاہ میں انٹرمیڈیٹ، گریجویشن اور ماسٹر لیول تک کی تعلیم سے طلبہ و طالبات مستفید ہورہے ہیں۔حالیہ دنوں میں یونیورسٹی آف چکوال کی منظوری کے بعد ہر خاص و عام میں جہاں خوشی کی لہر دوڑی ہوی ہے وہاں ہی کچھ احباب کی طرف سے لوگوں میں غلط فہمیاں پھلانے کا پراپیگںنڈ ہ بھی عروج پر ہے جس کا نتیجہ اساتذہ کرام کو موجب الزام ٹھہرانے کی صورت میں سامنے آرہا ہے جو کہ ہر کسی کے لئے باعث تکلیف ہے۔ میں آج اپنے اس کالم میں ڈگری کالج اور یونیورسٹی کے اخراجات،میرٹ کی وجہ محروم ہونے والے طالبعلموں کی پریشانی کے حوالے سے ماہر تعلیم معزز اساتذہ کرام کی مثبت سوچ آپ کے سامنے لانے کی کوشش میں ہو آخر میں اس مسئلہ کا حل بھی پیش کرونگا ۔
معزز اساتذہ کرام قوم کے محسن اور معمار ہیں۔ معزز اساتذہ کرام کی سوچ اور دوراندیشی دیکھ کر سوچا کہ مجھے بھی اس الجھاو کی کیفیت میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے معزز اساتذہ کرام کا کھلے دل سے کہنا ہے کہ ہم یونیورسٹی کے خلاف نہیں ہے بلکہ یونیورسٹی کے حق میں ہیں ہم یونیورسٹی آف چکوال کی کامیابی کے لئے اپنی تمام خدمات پیش کرینگے۔ہم فخر سمجتے ہیں کہ چکوال میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جانے والا ہے۔
مجے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پھر ایسا کیا معاملہ ہے کہ عوام الناس میں منفی سوچ پیدا کی جارہی ہے۔پرنٹ اور سوشل میڈیا پر یونیورسٹی اور کالج کے حوالے سے عجب کھینچاتانی ہورہی ہے ۔ اس سنجیدہ صورتحال میں یونیورسٹی اور کالج کے تعلیمی اخراجات اور طالبعلموں کے داخلوں کا موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ یونیورسٹی کے قیام کے باوجود بھی ڈگری کالج کا ہونا غریب و نادار طالبعلموں کے لئے ضروری ہے۔ کیونکہ یونیورسٹی کے ایک ڈیپارٹمنٹ میں 50 طالبعلم حضرات ہی داخلہ لے سکتے ہیں اور فی سمسٹر 50،000 ہزار فیس کا بوجھ الگ اٹھانا پڑتا ہے جبکہ کالج میں فیس کا اتنا بوجھ نہیں اٹھانا پڑتا کیونکہ کالج لیول پر طالبعلموں اور اساتذہ کرام کی فیس وتنخواہ،دیگر اخراجات گورنمنٹ کے زمہ ہوتا ہے جو HED ہائیر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے ماتحت ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں یونیورسٹی کو ایک خود مختار ادارے کے طورپر اپنے وسائل خود پیدا کرنا ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے یونیورسٹی کے بھاری اخراجات ہونے کی وجہ سے غریب طالبعلم ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اس طرح حقیقت سامنے آئی کہ کالج کو قائم رکھنے کا مطالبہ صرف غریب بچوں کے مستقبل کے لئے جارہا ہے۔
دوسری اہم بات یونیورسٹی میں میرٹ کی بناء پر داخلے ہوتے ہیں اس وجہ سے پورے پنجاب سے طالبعلم چکوال کارخ تو کرینگے لیکن چکوال کے بہت سے طالبعلم میرٹ پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے جب پرائیویٹ کالجز کا رخ کرینگے تو بھاری فیس کا بوجھ بھی اٹھانا ہوگا۔ کالج اساتذہ کرام کا کہنا ہے کہ ڈگری کالج کی حیثیت برقرار رہتی ہے تو یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملنے والوں بچوں کو ڈگری کالج میں سستا داخلہ ملے گا غریب لوگوں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا رہے گا۔
گورنمنٹ ڈگری کالج آسان سستا تعلیم کا زریعہ ہے یہ تعلیم ضلع کے غریب طلباء و طالبات کے لئے گھر میں ہے اگر ڈگری کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا تو بہت سے لڑکے لڑکیاں میرٹ کی وجہ سے داخلہ سے محروم ہو جائیں گے ۔ طالبعلموں کے لئے بننے والی اس پریشانی کا ازالہ ابھی سے ہی کیا جانا ضروری ہے اس لئے گورنمنٹ ڈگری کالج میں گرلز کالج کی وسیع بلڈنگ کا الحاق یونیورسٹی آف چکوال سے کیا جاے تو اس الحاق شدہ کالج کی موجودگی میں بے شمار طالبعلم تعلیمی اخراجات برداشت کرکے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھ سکیں گے۔ گورنمنٹ کالج کامرس جو پنوال روڈ پر واقع ہے اس کی وسیع بلڈنگ پر حکومت کافی وسائل سرف کررہی ہے وہاں بھی کالج بناکر یونیورسٹی آف چکوال سے الحاق کیا جا سکتا ہے معزز اساتذہ کرام چاہتیہیں کہ اس طرح سستی اور معیاری تعلیم کا دروازہ کھلا رہے۔
میری رائے میں اس مسئلہ کا پیارا حل صوبائی وزیر تعلیم راجہ یاسر سرفراز ہمایوں کا معمار قوم محسن ومعزز اساتذہ کرام سے ملکر باہمی گفت و شنید میں ہے اساتذہ کرام جو ماہر تعلیم ہیں انکی راے کو پیش نظر رکھتے ہوے یونیورسٹی آف چکوال کے ساتھ ڈگری کالج کی حیثیت قائم رکھنا یا یونیورسٹی آف چکوال سے الحاق شدہ ڈگری کالج کے قیام کا مطالبہ جان رکھتا یے تحفظات و خدشات اپنی جگہ لیکن باہمی اتفاق راے کے ساتھ اساتذہ کرام اور معاشرے کے تمام طبقات کو اعتماد میں لیا جانا موجودہ صورتحال کا حل ہے۔ایسا فیصلہ کیا جانا چاہیے جو چکوال کیغریب ونادار طالبعلموں کے حق میں ہمیشہ کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکے۔ صوبائی وزیر تعلیم راجہ یاسر سرفراز ہمایوں کی علم دوست علاقے میں جدید علوم کی شمع روشن کرنے کی کاوش جو یونیورسٹی کی شکل میں سامنے آچکی ہے ہر خاص و عام چکوال کو جدید تعلیم کا مرکز دیکھنے کے لئے بیتاب ہیں الله سے دعا ہے کہ چکوال جدید علوم کا مرکز بنے۔
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں