جذبات سب کےہوتے ہیں۔جوش بھی سب کو آتا ہے لیکن جوش کے ساتھ ہوش کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ بسا اوقات انسان جذبات کی رو میں بہہ کر غلط اور صحیح کی تفریق کھو دیتا ہے۔کہتے ہیں غصہ عقل کو کھا جاتا ہے اسی طرح جذبات کو ایک وقتی جذبے ابال کا نام دیا جاتا ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان اپنی ذہنی کیفیت بگاڑ لیتا ہے اور جذبات میں آکر بعض اوقات وہ کچھ کر بیٹھتا ہے جسکی تلافی ممکن نہیں ہوتی آہستہ آہستہ جب جذبات ٹھنڈے پڑنے لگتے ہیں تو بندہ اپنے کئے پر نادم ہونے لگتا ہے لیکن۔ اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ جذبات میں آکر کسی کا نقصان کرنا ۔کسی کا سر کھول دینا۔کسی کی گاڑی جلا دینا ۔کسی کے گھر کو نقصان پہنچانا مجنونانہ فعل ہیں کسی کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہ ہمیں قانون دیتا ہے اور نہ ہمارا مذہب ۔بلکہ انسان تو وہ ہے جو دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرے ۔ہم۔ریلیاں نکالتے ہیں۔ جلسے جلوس کا انعقاد کرتے ہیں۔ان میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں پرامن اور حب الوطن لوگ بھی اور شرارتی اور جذباتی بھی ۔لیکن کسی بھی ریلی یا جلوس کا اہتمام کیا جائے تو منتظمین کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جلوس میں شامل افراد کو پر امن احتجاج کی تاکید کریں تاکہ کسی کی املاک کو نقصان نہ پہنچے ۔ریلی کا مقصد پرامن احتجاج ہوتا ہے ملکی املاک کا نقصان کرنا نہیں۔
لاہور میں ڈنمارک کے خلاف نکالی جانے والی ریلی کا منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔اسلام آباد پنڈی پشاور چکوال اور دیگر کئ شہروں سے آنے والی گاڑیاں جو لاہور میں داخل ہونا چاہتی تھیں مسافروں سمیت لاتعداد چھوٹی بڑی گاڑیاں ۔کوچز۔کالا شاہ کاکو کے قریب رکی ہوئ تھیں ان گاڑیوں میں بہت سے مجبور لوگ بھی تھے خواتین بھی تھیں ضعیف و ناتواں بھی تھے۔ مریض بھی تھے۔جنہوں نے میڈیکل چیک اپ کیلئے ڈاکٹر سے ٹائم لے رکھا تھامعصوم بچے گاڑیوں میں بلک بلک کر رو رہے تھے اور سوالیہ نظروں سے اپنی ماووں کیطرف دیکھ رہے تھے جیسے وہ کہہ رہے ہوں "ماں جی" صبح سے شام ہوگئ ہے یہ کیسی گاڑی ہے جو چلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ خواتین متفکر تھیں کہ آج ہم گھر پہنچ بھی پائیں گی یا نہیں ۔مریض تکلیف کی شدت سے کراہ رہے تھے خچھ لوگ گھبرا کر ڈرائیوروں سے الجھ رہے تھے کہ گاڑی کیوں نہیں چلاتے ۔دیکھو فلاں گاڑی بھی جارہی ہے اور تم ہو کہ۔۔۔۔مگر بے بس ڈرائیور ایک ہی جواب دیتے تھے کہ جلوس والے ہماری گاڑی توڑ دینگے ۔گاڑی کو آگ لگا دیں گے۔ ہمیں ماریں گے۔دیکھو کتنے لوگ بتا چکے ہیں کہ لاہور شہر میں توڑ پھوڑ ہو رہی ہے کئ موٹر سائیکل اور گاڑیاں جلا چکے ہیں۔ قصور ڈرائیوروں کا بھی نہ تھا کیونکہ شہر میں قیامت کا سماں تھا۔جگہ جگہ آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے توڑ پھوڑ جاری تھی ۔اس ریلی میں جن لوگوں کی گاڑیاں جلیں ان میں بد قسمت شوکت بھی تھا خوش شکل خوش وضع ایم ایس سی کر رہا تھا کہ والد کا سایہ سر سے اتھ گیا چھ بہنوں کا اکلوتا بھائ ہونے کے باعث تلاش روزگار میں سرگرداں ہو گیا ۔مگر جلد ہی دیارغیر میں جانے کا سبب ہوا دو سال بعد اپنے وطن لوٹا تو بہن کے ہاتھ پیلے کئے ۔بہنیں اپنے اکلوتے بھائ کو اپنے سے دور نہیں دیکھنا چاہتی تھیں چنانچہ طے پایا کہ ٹیکسی خرید کر گھر کا نظام چلایا جائے ۔شوکت کے پاس اسوقت ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ رقم نہ تھی اس نے اپنے دوستوں سے چارلاکھ روپے قرض لئے اسطرح شوکت نے ٹیکسی کار خرید ڈالی۔شوکت دن بھر محنت کرتا اور شام کو اپنی پیاری ماں اور بہنوں کے پاس ہوتا۔ اللہ نے ٹیکسی کار کے ذریعے اسکی روزی کا بندوبست کر دیا ۔اور اسکے گھر والے خوش وخرم زندگی گذارنے لگے۔۔۔ ڈنمارک کے خلاف منعقدہ ریلی والے دن محلے کے کسی شخص نے منت سماجت کی کہ میری ماں سخت بیمار ہے خدا کے واسطے ہسپتال چلو ورنہ میری ماں مر جائے گی۔شوکت نے اسے بتایا کہ مجھے جانے سے تو انکار نہیں لیکن احتجاجی مظاہرے والے توڑ پھوڑ بہت کر رہے ہیں۔میری گاڑی توڑ ڈالیں گے مگر مجبور محلے دار نے ایک نہ سنی۔۔۔ شوکت اسکی مجبور ی کے پیش نظر انہیں ہسپتال لے جا رہا تھا کہ ایک چوراہے پر کسی نے گاڑی روکی ۔پہلے فرنٹ والا شیشہ توڑا پھر شوکت کی درگت بنائ ۔اسکے سامنے اسکی کار کے دروازے اکھیڑے اور چند لمحوں میں مٹی کا تیل چھڑک کر کار کو آگ لگادی۔شوکت جس نے ابھی دوستوں کے چار لاکھ روپے ادا کرنا باقی تھے ۔۔۔جس کے سر پر ذمہ داریوں کا بوجھ تھا ۔لوگوں کے ہجوم میں ایسا گم۔ہوا کہ آج تک اسکے ز ندہ یا مردہ ہونے کی اطلاع نہیں مل سکی۔ قارئین کرام۔کسی کی گاڑی جلا دینا ۔کسی کی روزی پر لات مارنا ۔اسکی زندگی بھر کی کمائ کو آگ میں جھونک دینا ۔کہاں کی شرافت ہے ۔یہ کیسا احتجاج ہے۔اپنے ہم وطنوں کے گلے کاٹے جارہے ہیں۔ شوکت کا قصور کیا تھا۔۔؟ صرف یہ کہ وہ کسی کی ماں کو ہسپتال تک پہنچانا چاہتا تھا۔۔ماں تو دنیا کا سب سے عظیم رشتہ ہے ۔کار جلانے والوں کو بھی تو کسی ماں نے جنم دیا ہوگا ۔۔۔پھر یہ ظلم کیسا۔ اس نے تو ابھی پانچ بہنوں کا فرض ادا کرنا تھا ۔۔۔وہ تو گھر کا واحد کفیل تھا۔اس غریب کے پاس ایک گاڑی ہی تو تھی جس سے وہ گذراوقات کر رہا تھا۔۔ظالمو تم نے اس سے گاڑی بھی چھین لی ۔چھ بہنوں کا اکلوتا بھائ ان سے جدا کردیا۔ان بہنوں کے جوڑے کون تیار کرے گا۔۔وقت رخصت انکے سر پر کون ہاتھ رکھے گا۔ بیمار ماں یہ اتنا بڑا صدمہ کیسے برداشت کر ےگی ۔ظالمو تم نے چند لمحوں میں انکی دنیا اندھیر کر دی ۔۔ایک قیامت بپا کردی۔۔دیکھو آج بھی شوکت کی ماں اپنے بیٹے کا انتظار کر رہی ہے۔بہن بھائ کی منتظر ہیں۔۔ یہ کیسا احتجاج ہے جو ہنستے بستے گھر اجاڑ رہا ہے۔۔دیکھو دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔اسوقت کا انتظار کرو جب خوئ تمہارا گھر اجاڑے گا ۔تمہارے ساتھ وہ ہی کچھ ہوگا جو شوکت کے ساتھ کیا گیا ہے، خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔
|
---|
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں