ٖ بچے گھروں سے کیوں بھاگتے ہیں۔۔۔؟ وائس آف چکوال (VOC)

ہمارے معاشرے میں بچوں کے معاملے میں جسطرح بے اعتنائ برتی جارہی ہےاسکا تصور ہی نہیں کیا جا سکتااور اس معاملے میں حکومت اور عوام دونوں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مکمل طورپر ناکام ہو چکے ہیں اس بات کی شدت کا اندازہ اسطرح لفایا جا سکتا ہے کہ کم ازکم دولاکھ چالیس ہزار گھرون سے بھاگے ہوئےمعاشرے کے غیر ذمہ داران افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں سوال یہ ہے کہ بچے گھروں سے فرار کیوں ہوتے ہیں ہمارے ملک میں ہزاروں "سماج سدھار" تنظیمیں قائم ہیں لاتعداد حکومتی ادارے موجود ہیں مگر بچے سڑکوں۔گلیوں۔باغوں اور مزارات کے آس پاس رلتے نظر آتے ہیںکسی کے پاس فرصت نہین کہ اس بات کو جاننے کی کوشش کرے کہ یہ بچے کون ہیں۔۔؟ کہاں سے آئے ہیں۔اور کیا کر رہے ہیں۔یقینا کل یہ بچے مجرموں کی صف میں کھڑے ہونگے یہی بچے مجرموں کے ٹولز بنتے ہیں بڑے مجرموں کو اپنے مطلب کیافرادی قوت گھروں سےبھاگے ہوئے انہی بچوں سے ملتی ہے بچوں کے معاملے میں ہماری لاپرواہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہےکہ علاقہ غیر میں درجنوں کے حساب سے بیگار کیمپ ہیں جہاں اغواشدہ بچوں کو رکھا جاتا ہےان کیمپوں میں بھی بڑی تعداد ان بچوں کی ہوتی ہےجوکہ گھروں سے فرار ہوتے ہیں اور بردہ فروشوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں لیکن حیرت کا مقام ہےکہ آج تک ان بیگار کیمپوں کے خلاف کوئ سخت اقدام  نہیں اٹھایا گیا۔ بچوں کے فرار میں معاشی دشواریاں بے جا سختی اور والدین کی جیالت جیسے عوامل شامل ہیں غربت اور جہالت ملکر والدین خصوصا باپ کو خاصا چڑچڑا بلکہ ابنارمل بنا دیتے ہیں وہ معاشری ناانصافیوں کا بدلہ اپنی ہی اولاد سے لیتا ہے۔جیالت کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کی مناسب ذہنی تربیت نہیں کر پاتے اور پھر بچوں کی معمولی غلطیوں پر بھی اسے اتنی عبرتناک سزا دیتے ہیں کہ انسانیت لرز جاتی ہے غریب والدین کے بچے اپنی معمولی معمولی خواہشات بلکہ ایک ایک پائ کیلئے بھی ترستے ہیں دیہات اور پسماندہ علاقوں کا ماحول خاصا گھٹن زدہ ہوتایےاکثر بچوں کے گھر سے بھاگنے کا سبب والد کی بے جا سختی ہوتی ہےانہیں گھروالے یاد آتے ہیں لیکن باپ کی وحشت کے باعث وہ گھروں کا رخ  نہیں کرتے بعض بچے زیادہ پابندی قبول  نہیں کرتے اور گھر سے بھاگ جاتے ہیں یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے۔
ہمارے پاس آوارہ گردی کا قانون موجود ہے اگر آوارہ پھرنے والے بچوں سے پوچھ گچھ کی جائے تو ایسے بچوں کے متعلق پتہ چل سکتا ہے یہ ۔سئلہ سنگین ہے جو عوام اور انتظامیہ کے مکمل تعاون سے ہی حل ہو سکتا ہے جو بچے آوارہ نظر آتے ہیں ان پر چیک اینڈ بیلنس ضرور ہونا چاہیئے یہ ہی آوارہ پھرنے والے بچے بدقماش افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے تین وجوہات کی بنا پر گھروں سر بھاگتے ہیں۔1۔گھروں کا سخت اور گھٹن زدہ ماحول۔ 2۔والدین میں علیحدگی یا طلاق ہو جانا۔3۔معاشی اور اقتصادی مسائل۔۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر شادیاں بے جوڑ ہوتی ہیں زیادہ تر جوڑے صابروشاکر شادیاں تو نبھانے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر انکے گھروں کے ماحول میں طمانیت اور سکون نظر نہیں آتا۔میاں بیوی میں ہم آہنگی ہوتواولاد کی تربیت اچھی ہوتی ہے اگر وہ لڑتے رہیں تواسکا اولاد پر منفی اثر پڑتاہے جسکا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ بچے ماحول سے باغی ہوجاتے ہیں اسطرح ۔معاشی ناہمواریاں بھی گھروں میں جھگڑے پیدا کرتی ہیں اسکا اثر بھی اولاد پر غلط پڑتا ہے ہمارے ملک میں اولاد کے ذہنی رجحان کے خلاف اسکو زبردستی کسی کام میں ڈال دیا جاتا ہے حتی ا کہ پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی اولاد پر اپنی مرضی مسلط کیجاتی ہے بچے کا رجحان انجینئرنگ کیطرف ہوگا باپ اسے ڈاکٹر بنانے پر تلا ہوگا یہ رجحان بھی بچوں کی تباہی کا باعث بنتا ہے ناخواندہ افراد تو اپنی اولاد کے معاملے میں فیصلے ہی غلط کرتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے اپنے ماحول سے فرار چاہتے ہیں یہ کہنا آسان ہے کہ بچے سختی مارپیٹ اور گھٹن زدہ ماحول کی وجہ سے فرار ہوتے ہیں بچے اپنی معمولی خواہشات کو ترسنے کئ وجہ سے فرار ہوتے ہیں بچے گھریلو ماحول اور پابندیوں اوردیگر بے شمار مسائل کی وجہ سے فرار ہوتے ہیں ہمارے دانشوروں ۔صاحب فکر افراد اور دوسرے ذمہ داران نے طے کرلیاہے کہ بچے اس وجہ سے فرار ہوتے ہیں اب دیکھنا یہ کہ اسباب کے سدباب کیلئے کیا منصوبہ بندی کی گئ ہےمختلف این جی اوز اور تنظیموں ۔نجی اور حکومتی اداروں نے اس سلسلہ میں اپنی کیا ذمہ داریاں پوری کی ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو پوری قوم کو اپنے مستقبل کے متعلق فکرمند ہونا چاہیئے ۔سینکڑوں بچے اغوا ہوکر قتل ہو جاتے ہیں مگر قوم کو اس سانحے کے متعلق علم نہیں۔۔ 

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top