ٖ ۔۔۔۔۔۔پولیس والے کی نہ دوستی اچھی نہ دشمنی وائس آف چکوال (VOC)

کالم۔۔۔ خاموش قانون۔۔۔۔
تحریر ۔۔ ملک نذر حسین عاصم 
0333 5253836
کہتے ہیں کہ پولیس والے کی نہ دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی۔ گو کہ ہر جاندار کی ایک  اپنی فطرت ہوتی ہے۔ہر ایک کا اپنا مزاج ہوتا ہے تاہم پولیس والا پولیس والا ہی ہوتا ہے۔اختیارات سے تجاوز اسکی گھٹی میں شامل ہوتا ہے۔جب کہیں پولیس والے اپنی من مانی کرتے ہیں اور عوام کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں تو صحافی کا قلم بلا تامل اٹھ جاتا ہے۔کیونکہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا صحافی کی ذمہ داری  میں شامل ہے۔وہ بعینہ حقائق کی آنکھ سے جو کچھ دیکھتا ہے صفحہ قرطاس پر بکھیر کر اپنا دل مطمئن کر لیتا ہے ۔اخبار میں خبر آئ کہ لاہور کے ایک ایس ایچ او نےاپنے علاقے کے ایک بے گنا نوجوان شکیل کو کسی " بڑے " کے کہنے پر اٹھایا اورتھانے لے جا کر اسقدر تشدد کیا کہ وہ زندگی سے رشتہ توڑ گیا ۔۔ شکیل۔۔جو اپنے گھر کا واحد کفیل تھا۔جس نے بڑے ارمانوں سے چند روز بعد اپنی دوکان کا افتتاح کرنا تھا ۔جسکی بہنیں شادی کے جوڑے تیار کر رہی تھیں ۔اسے پولیس والوں نے ماردیا۔ ایک بے گناہ کی زندگی چھین لی۔اسکے جسم پر رولے پھیرے گئے۔یہ اس تھانے کا قصہ ہے کہ جس ایس ایچ او نے چند دن پہلے اخباری بیان دیا تھا کہ میں اپنے تھانے میں کوئ ایسی حرکت برداشت نہیں کرونگا جس سے میری وردی پر داغ لگے۔۔واہ رے قاتل ایس ایچ او ۔تمہاری دوغلی پالیسی۔تم  نے تو وہ کانامہ سر انجام دیا ہے کہ رب العزت تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔تم نے ایک بے گناہ کے خون سے اپنی وردی کو رنگا ہے۔۔تم ظالم ہو۔۔تم قاتل  ہو۔۔تم نے جو جرم کیا ہے اسکی سزا تمہیں ضرور ملے گی ۔۔انتظار کرو ۔خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔تم نے ایک خون ناحق کیا ہے۔بہنوں کا بھائ اور گھر کا کفیل چھینا ہے۔۔تمہارا انجام بھی یہ ہی ہوگا۔دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔اے پولیس والو! جب تم  نے شکیل کو الٹا لٹکایا ہوگا۔۔۔جب اسکے جسم پر آہنی رولے پھیرے ۔اسوقت اپنا کوئ بھائ بہن ۔بیٹا عزیز رشتہ دار تمہاری آنکھوں کے سامنے نہیں آیا ۔یہ نہ سوچا کہ آج شکیل کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں۔اگر ہمارے کسی بھائ عزیز کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا تو اسوقت تمہاری کیا کیفیت  ہوتی۔ یا تم ان پولیس والوں کو شوٹ کر دیتے۔یا تم پاگل ہوجاتے۔جب تم درندگی کی حدیں پار کرکے کسی بے گناہ بھائ بیٹے یا شوہر کی جان لینے کا ارادہ کرتے ہو ۔اسوقت تمہاری آنکھوں میں وردی کی مستی تکبر اور غرور  میں تنے ہوئے تمہارا جسم تمہیں یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتاکہ تم کیا کر رہے ہو۔ اپنے جسم میں ایک کانٹا تو چبھو کر دیکھو کہ کس قدر تکلیف ہوتی ہےاور جب تم چار پانچ اہلکار کسی ایک بے گناہ۔ بے یارومددگار پر ٹوٹ پڑتے ہو تو پھر بندہ کیسے بچ سکتا ہے۔یہ تو سوچ لیا کرو کہ اس نے آپکا ذاتی کوئ نقصان  نہیں کیا۔۔ مقام افسوس ہے کہ آج تک پولیس تشدد سے ہونیوالی ہلاکتوں کا نوٹس نہیں لیا گیا ۔کبھی پولیس مقابلہ اور کبھی خودکشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔اور ظاہر ہے پولیس والا پولیس والے کو ہی تحفظ دیتا ہے۔آخر بھینس بھینس کی ہی بہن ہوتی ہے۔صرف جواب طلبی۔۔۔محض کاغذی کاروائ ۔فرضی اور دکھاوے کی کاروائ ۔۔چادن معطل کر دینے سے شکیل جیسے جوان واپس تو نہیں آجاتے۔ اگر عام آدمی قتل کرے تو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 لاگو ہوتی ہے۔اگر پولیس والا قتل کردے تو قانون خاموش ہو جاتا ہے۔انتظامیہ چپ سادھ لیتی ہے۔لیکن آخر کب تک۔۔۔؟ کسی کی عزت محفوظ نہیں ۔ایک ادنی سپاہی جسے اور جب چاہے لاکر تھانے میں بند کردے ۔۔چوراہے پر چھترول مارے۔یا گھر میں گھس کر ہتک کرے۔کئ کئ دن بلاجواز تھانے میں بند رکھے ۔۔۔کوئ پوچھنے والا نہیں کہ آخر اسکا جرم کیا ہے۔اگر جرم ہے تو ایف۔آئ۔آر کے بعد حوالات کیوں نہیں بھیجا گیا۔لیکن کون پوچھے۔ہر کسی کے پیچھے کوئ نہ کوئ بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔جو ظلم سے نہیں بچا سکتا لیکن ظالموں کو بچا سکتا ہے۔ کیا تھانے میں پولیس اہلکاروں کو اجازت ہے کہ وہ انسانی جسموں پر آہنی رولے پھیر کر انہیں ہلاک کریں۔ یہ تھانہ ہے یا ٹارچر سیل ہے۔ آئے دن پولیس گردی کے ایسے واقعات سننے میں آتے ہیں بے گناہ افراد کو موت کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔۔ لیکن چادن اخبار میں چھپتا ہے۔۔ محکمہ نوٹس جاری کر دیتا ہے۔اور پانچویں دن وہ اہلکار کسی نئے تھانے کا ایس۔ایچ۔او ہوتا ہے ایسا کیوں ہوتا یے ۔اسلئے کہ محکمہ ہمیشہ اپنے ہی ملازم کی طرفداری کرتا ہے ۔انہیں کسی سے کیا۔کسی کا گھر اجڑتا ہے تو اپنی بلا سے۔ لیکن میں ان سے پوچھتا ہوں۔جنہیں اللہ تعالی نے اعلی منصب دیکر عوام کی جان و مال کا محافظ بنایا ہے۔کہ آخر کب تک۔ ایسے شکیل قتل ہوتے رہیں گے؟ کب تک محکمہ ان کی طرفداری کرتا رہے گا۔۔؟ یاد رکھو تمہارے اوپر ایک اور ذات بھی ہے ۔وہ ذات جو جب چاہے تمہاری جان لے سکتی ہے۔۔۔ قاتل ایس۔ایچ۔او تمہارا جرم ناقابل معافی ہے۔جان لو کہ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ جیسا سلوک تم نے شکیل کے ساتھ کیا۔برا وقت کبھی پوچھ کر نہیں آتا۔ انتظار کر و اسوقت کا ۔جب کوئ ناگہانی آفت تم پر آن اترے گی۔ تم چیخو گے چلاو گے۔لیکن تمہاری آواز کوئ نہ سنے گا۔ اسلئے کہ تم نے بھی تو شکیل کی آواز نہ سنی تھی۔

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top