ٖ بیدارھونےتک وائس آف چکوال (VOC)


کراچی شہر بے یارو مددگار


ابھی کرونا وائرس کے حملوں سے قدرے جان ہی چھوٹی تھی کہ رحمت بن کر آنے والا ساون حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی اور بدنیتی کے سبب شہریوں کیلئے عذاب بن گیا، کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں پاکستان بھر سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی رہتے ہیں سندھ حکومت میں سو فیصد روزگار اندرون سندھ کو ملنے کے باعث ان کی بھی بڑی تعداد یہاں قیام پزیر ہے اور کچھ کے وسائل تعلقات اور رشوت کی رقم نہ ہونے پر وہ اپنے تیئیں روزگار کیلئے اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔

 ان لوگوں میں اندرون سندھ کے مہاجر، پنجابی، بلوچی، پٹھان و دیگر قوم سے تعلق رکھتی ہیں، ٹرین اور بسوں کے ذریعے جنوبی پنجاب، سینٹرل پنجاب کے اچھے خاصے لوگ بھی روزگار کیلئے اس شہر کا رخ کرتے ہیں، اگر بات کی جائے خیبرپختوانخوا کی تو اس صوبے کی بھی بہت بڑی اکثریت اس شہر کے داخلی و خارجی راستوں میں بسی ہوئی ہے۔صوبہ گلگت بلتستان کے بھی لوگ جوق در جوق اس شہر میں بسے ہوئے ہیں،  بات یہیں ختم نہیں ہوتی یہاں بنگالی، برمی اور افغانیوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔۔۔

 معزز قارئین!! میرا کالم مکمل شفاف اعتدال سچ و حق پر منبی ہوگا کیونکہ میں اپنی تحریر میں بنا تفریق کیئے ایک قوم اور ایک امت کی نسبت بات کرونگا۔۔معزز قارئین!! اب دیکھنا یہ ہے کہ سن انیس سو ستر کے بعد مغربی پاکستان مشرقی پاکستان سے جدا ہوکر صرف پاکستان ہوگیا تھا کیا ہماری سیاسی جمہوری جماعتوں نے جمہوریتی قوانین اور جمہوریت کو تقویت پہنچائی؟؟؟ 

کیا جمہوری حکومتوں نے عوام الناس کی فلاح و بہبود کی پلاننگ اور پروجیکٹ کو مناسب رقوم میں پائے تکمیل تک پہنچایا؟؟؟ کیا ہماری جمہوری حکومتوں نے ہر صوبے کے گاوں دیہات اور شہروں کو بنیادی سہولیات سے آراستہ کیا؟؟؟ کیا ہماری جمہوری حکومتوں نے عوام کے ٹیسکوں کا صحیح مصرف اختیار کیا؟؟؟ کیا ہماری جمہوری حکومتوں نے دیگر جمہوری سیاسی جماعتوں کیساتھ ملکر ملک و قوم کی ترقی کیلئے قدم بڑھائے؟؟؟؟ کیا ہماری جمہوری حکومتوں نے سرکاری و نجی اداروں کو فحال بنایا؟؟؟ کیا ہماری جمہوری حکومتوں نے کرپشن، بدعنوانی، رشوت ستانی، اقربہ پروری اور لوٹ مار کا خاتمہ کیا؟؟؟ کیا ہماری جمہوری حکومتوں نے اپنی اپنی دانستہ و غیر دانستہ کوتاہیوں غلطیوں کا اعتراف کیا؟؟؟ 

معزز قارئین! ان ستر کی دھائیوں میں پنپنے والی تمام کی تمام بشمول موجودہ سیاسی جماعت بری طرح ناکام شکست خور ثابت ہوئی ہیں، یہ حقیقت ہے کراچی سونے کی چڑیا ہے لیکن یہ سونے کی چڑیا بنانے والے وہ مہاجرین تھے جنھوں نے ہجرت کرکے اپنا مال و دولت، اپنی قابلیت، اپنا ہنر سے کراچی کو بین الااقوامی شہر بنادیا تھا۔

 جائیں اصلی تاریخ کا مطالعہ کریں پی آئی اے کس نے دی، اسٹاک اایکسچینج کس نے بنایا، جہاز رانی سے لیکر بینک تک۔ جو لوگ اعتراض کرتے ہیں وہ بتائیں قبل از کراچی کس صورت میں تھا، کراچی کا ستر سالوں بلکہ ایوب خان نے سب سے پہلے استحصال اس وقت کیا جب کراچی کو دارلخلافہ تبدیل کرکے اسلام آباد کو بناڈالا اور ستر کے بعد سے تمام کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس کا مکمل استحصال ہی رکھا۔

پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر کراچی ہی ہے، کراچی سے باہر کے لوگوں نے قبضہ کرکے زمینیں ہتھیائی ہیں جن میں پولیس و اداروں کیساتھ سیاسی لوگ بھی شامل رہے ہیں، چائنا کٹنگ ہو یا گینگ وار کے قبضے جس کے ہاتھ جو آیا اس نے وہی لوٹا، اب بھی جان نہیں چھوڑ رہے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے مخلص اس صورتحال پر خاموش کیوں؟؟؟ کیا یہ کھلی دہشتگردی نہیں؟؟؟ 

آج کراچی ڈوب رہا ہے بچانے کے بجائے چینلز میں دست گریباں ہیں، آخر کراچی اپنی مدد کیلئے کس سے کہے کس کو پکارے، میں وزیراعظم صدر مملکت آرمی چیف سے گزارش کرچکا ہوں کہ کراچی کو آفت زدہ علاقہ فی الفور قرار دیں اور دو ماہ کے تمام ٹیکس بمع یوٹیلیٹی بلز معاف کیئے جائیں کیونکہ کراچی کے شہری مالی و جانی نقصان سے دوچار ہوچکے ہیں اس پر دکھ یہ ہے کہ بجلی اور گیس کے بلوں میں ہوشربا ٹیکس اور اضافے بھر دیئے ہیں جینے کا کہیں تو سہارا چھوڑیں۔

 کراچی کیلئے یہ ظلم ذہن و دماغ پر اچھے اثرات نہیں چھوڑے گا یقینا پاکستان کے مخلصوں کو اس بابت اب اقدام اٹھانا ہوگا تاخیر سے ناتلافی نقصان سے دوچار بھی ہوسکتے ہیں!! اللہ پاکستان اورکراچی کی عوام کا حامی ناظر ہو۔
 آمین ثم آمین

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top