ملک نذر حسین عاصم
03335253836
ضیغم کا محلے دار آکر منت سماجت کرنے لگاخدا کیلئے میری ماں کو بچا لو۔میری ماں کی حالت خطرے میں ہے انہوں نے آنکھیں بند کرلی ہیں بروقت ہسپتال نہ پہنچے تو خدانخواستہ ۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے اسکی آواز رندھ گئی۔ ضیغم بھائی شہر میں ہڑتال ہے کوئی ٹیکسی رکشہ نہیں مل رہا۔ خدارا اپنے گاڑی نکالو اور میری ماں کو ہسپتال پہنچاؤ۔ آخر تمہاری بھی تو ماں ہے وہ بھی تو۔۔۔۔ بھیگتی آنکھوں سے اسکی مجبوری جھلک رہی تھی لیکن ضیغم سوچوں کے سمندر میں غوطہ زن تھا کہ سڑک پر کسی گاڑی کا جانا خطرے سے خالی نہیں ' احتجاج والے جلاؤ گھیراؤ کررہے ہیں اگر وہ ہمیں برداشت نہ کرسکے تو پھر۔۔ ؟؟؟
سوچوں کا لا متناہی سلسلہ اسکے ارادے کمزور کررہاتھا لیکن اسے خیال آیا کہ اگر میری ماں بیمار ہوتی اور میں اس طرح مجبور ہوتا تو۔۔۔۔؟
بس یہ ہی سوچ کر وہ ہسپتال چلنے کیلئے آمادہ ہوگیا کہ حالات جیسے بھی ہوں مجھے ایک ماں کو بچانا ہے۔
احتجاج سنگین تھا بازار بند ٹریفک بند ۔ہر طرح کی امدورفت بند نہ کوئی ہسپتال جاسکتا تھا نہ اپنی منزل مقصود پر۔ ہاتھوں میں لاٹھیاں اٹھائے نہ جانے کون لوگ سڑکوں پر قبضہ جمائے بیٹھے تھے قانون کے محافظ بھی بے سروسامانی کے عالم میں بت بنے کھڑے تھے کوئی موٹر سائیکل سوار نظر آتا اسکی درگت بنادیتے۔کوئی گاڑی دکھائی دیتی اسکو زمین سے لگا دیتے ہرشخص مجبور اور بے کس نظر آرہا تھا لوگ محو حیرت تھے کہ آنے جانے والے لوگوں کا کیا قصور ہے ان عمارتوں کو کیوں نقصان پہنچا یا جارہاہے ان گاڑیوں موٹر سائیکل سواروں کا کیا جرم ہے؟ کون لوگ ہیں جو سب کو سزا دے رہے ہیں کسی مجبور بیمار اور مسافر کی انکے نزدیک اہمیت نہیں ہے یہ کون لوگ ہیں کیا چاہتے ہیں؟ یہ کیسے محب وطن ہیں جو توڑ پھوڑ کررہے ہیں ہر شخص پر انکی لاٹھی برس رہی ہے کوئی انکو پوچھنے والا نہیں ہے ہمارے ہاں احتجاج ایک رواج بنتا جارہا ہے ہر پارٹی کبھی حکومت گرانے کیلئے کبھی حکومت بنانے کیلئےکبھی کسی کے اشارے پر کبھی مطالبات لیکر سڑکوں پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی ہے لیکن احتجاج کے نام۔پر جلاؤ گھیراؤ املاک کا نقصان مسافروں کی تذلیل سمجھ میں نہیں آتی۔اور ہر احتجاج سے ہونیوالے نقصانات کا تخمینہ غیر معمولی ہوتا ہے کئی رہنماؤں اور پارٹیوں نے اپنے مفادات کی خاطر وطن عزیز کو نقصان پہنچایا ہے قومیں احتجاج سے نہیں اتفاق سے بنتی ہیں قوم کیلئے قربانیاں دی جاتی ہیں لاٹھی گولی اور دھمکی سے قوم کو دبایا نہیں جاسکتا۔ ملک کو نقصان پہنچا کر احتجاج کا نام دینا صریحاً دہشت گردی ہے لیکن ہر دور حکومت میں احتجاج کے نام پر یہ ہی کچھ ہوا ہے ۔ ضیغم اپنے عزم و حوصلے کے ساتھ مختلف خفیہ راستوں سے ہوتا ہوا مرکزی روڈ تک جا پہنچا ۔اچانک کچھ لوگ ہاتھوں میں ڈنڈے لئے آگے بڑھے اور ضیغم کی گاڑی پر ہلہ بول دیا مجبوری بتانے سے قبل ہی گاڑی کے شیشے چکنا چور ہو گئے دو لڑکوں نے گاڑی کا ایک دروازہ اکھیڑ کر دور پھینک دیا ضیغم پھٹی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ ہمارا جرم کیا ہے؟ یہ لوگ کون ہیں جنہیں کسی کی مجبوری پر بھی رحم نہیں آرہا۔ لوگوں کا ایک جھرمٹ امڈ آیا اور گاڑی کے پرخچے اڑا دیئے ۔ایک ماں احتجاج کی نذر ہو کر جان کی بازی ہارگئ گاڑی میں سوار سب لوگ زخمی ہوگئے ضیغم جو چند ماہ پہلے ہی بیرون ملک ملازمت کو خیرباد کہکر آیاتھا کہ میں نے اپنے ملک میں ہی رہنا ہے ذہن کے کینوس اسکے خیالات اسے پریشان کر رہے تھے اسکے پاس کل چار لاکھ روپے تھے اس نے دوستوں سے چار پانچ لاکھ ادھار لیکر گاڑی خریدیں تھی کہ اب وہ اپنے ملک میں رہ کر یہ گاڑی چلاکر اپنا نان نفقہ پورا کرے گا اسکی تمام سوچیں دھری کی دھری رہ گئیں وہ ذہنی توازن کھو بیٹھا اور فضاؤں میں قہقہے بلند کرتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
لیکن سوال یہ کہ ضیغم کا قصور کیا تھا؟ یہ احتجاج ہمارا کلچر بنتا جارہا ہے؟ گزشتہ سالوں کا ریکارڈ دیکھئے ایک سال میں کتنے احتجاج ہوئے ہیں ان احتجاجوں سے ہونیوالے نقصانات کا تخمینہ لگائیے ہم نے ملک کو کیا دیا ہے؟
احتجاج میں شامل کچھ شرپسند عناصر اس بہانے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں یہ سب کچھ ہمارے ملک کو بدنام کرنے کی سازش ہوتی ہے اپنے مقاصد کے حصول کیلئےاحتجاج تو پرامن بھی ہوسکتا ہے پھر یہ شرانگیزی چہ معنی دارد؟ چڑیا اور فاختہ نے کبھی اپنا گھونسلا نہیں توڑا ہم تو اشرف المخلوقات ہیں پھر ہم شعور کے باوجود اپنا ہی نقصان کرکے کس کو خوش کررہے ہیں؟
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.