ٖ خبردار اگر آپ غریب شخص ہیں تو پھرآپ ۔۔۔۔۔۔ وائس آف چکوال (VOC)
ہیڈ لائن

2:26 PM استاد کا احترام


اگر آپ بااثر ہیں ، آپ کے موجودہ حکمران جماعت کے رہنماوں سے تعلقات ہیں  یا آپ کے پاس قیمتی گاڑی ہے ، یا اگر آپ بڑے ٹرانسپورٹر ہیں تو پھر آپ آپ بلا جھجک تلہ گنگ کے مین روڈز پر اپنی گاڑیاں پارک کر سکتے ہیں - آپ کی گاڑی پارکنگ سے اگر کوئی مسائل جنم لیتے ہیں تو بھی فکر کی کوئی بات نہیں - مقامی انتظامیہ کا کوئی افسر یا اہلکار ان مسائل پر حرکت میں نہیں آئے گا - آپ کے بڑے بڑے ٹرالر ، ٹرک یا آپ کی بڑی بڑی بسیں ہیں تو وہ شہر میں مٹی اڑاتی عوام کو دھول چٹاتی فراٹے بھرتے ہوئے شہر سے گزر سکتی ہیں - آپ کو کوئی روک ٹوک نہیں  لیکن خبردار اگر آپ غریب شخص ہیں ، آپ کا دانہ پانی روزانہ کی مزدوری کرنے کے عوض ملنا لکھا ہے اور اگر آپ ریڑھی بان ہیں اور روزانہ شام کو آپ اپنے بال بچوں کےلئے چند سو روپے لیکر جاتے ہیں تو پھر آپ قانون کی زد پر ہیں۔
آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ آپ سڑک کنارے کھڑے ہو کر رزق حلال کمائیں؟
 اگر آپ سے آپ کے بچے شدت کی ان سردیوں میں گرم کپڑے مانگیں تو آپ کو بھی کراچی کے اس غریب مزدور کے اس عمل پر لبیک کہتے ہوئے یہ دنیا چھوڑ دینی چاہئے ۔یہ کیسی ریاست ہے  یہ کونسا قانون  ہے ؟
  ریاست تو ماں ہوتی ہے تو یہ کیسی ماں ہے جو غریب سے اس کا کمانے کا حق چھین رہی ہے - یہ کیسی ماں ہے جو امیروں کے ساتھ اور اور غریبوں کے ساتھ کوئی اور سلوک کرتی ہے ۔
میں سر جھکائے اس کی سن رہا تھا - صاحب جی ہمارے لئے کچھ کریں نا ،اللہ جانتا ہے بڑی مشکل سے گزارہ ہو رہا تھا بوڑھی والدہ بیمار ہے - چار بچے ہیں جن کے کھانے پینے کا انتظام کیسے ہو رہا ہے - یہ میں آپ کو کیسے بتاوں - میں پورا دن والدہ کی تیماداری کرتا ہوں ، عصر کی نماز کے بعد ریڑھی لیکر موسم کی مناسبت سے چند کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرتا ہوں اور کبھی چار پانچ تو کبھی بمشکل دو سو روپے لیکر گھر جاتا  ہوں- اب گزشتہ تین روز سے میری ریڑھی ٹی ایم اے میں بند پڑی ہے - نئے آنے والے افسر نے ٹی ایم اے بلوایا تو بھاگ کر گئے کہ اب ریڑھی مل جائے گی - گھر والے بھی خوشی سے نہال ہو گئے - وہاں گئے تو ایک اور قیامت ہم پر ڈھا دی گئی ۔
وہ رندھی ہوئی آواز میں بتا رہا تھا کہ وہاں پہنچے تو دو ہزار روپے جرمانے کی نوید سنائی گئی جسے سنتے ہی جیسے ٹانگوں سے جان نکل گئی ہو - صاحب جی پتہ جب شام کو خالی ہاتھ گھر لوٹا تو میرے بچے جو شاید دروازے کے ساتھ ہی کھڑے تھے - فورا بھاگتے ہوئے آئے اور بولے بابا ہمارے لئے کیا لائے ہو - وہیں سے واپس پلٹ آیا یہ کہتے ہوئے وہ تقریبا رو پڑا تھا - صاحب جی آپ ان سے بولیں نا ہمیں شام کو ریڑھی لگانے دیا کرے گھر کا کچھ نہ کچھ نظام چل جاتا ہے - میں نے اس کو دلاسہ دیا اور گھر بھیج دیا ۔
مجھے بتایا جائے اگر ریاست ، مقامی انتظامیہ اس کو مزید تنگ کرتی ہے  اور وہ خودکشی پر مجبور ہو جاتا ہے -تو اس کا خون کس کے سر پر ہے - بار بار ریاست مدینہ کی مثالیں دینے والوں کو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا وہ فرمان کیوں بھول جاتا ہے کہ دریا فرات کے کنارے اگر بھوکا پیاسا کتا بھی مر گیا تو میں عمر اس کا ذمہ دار ہونگا۔
مقامی انتظامیہ کے افسران شاہ سے زیادہ شاہ کے فرمانبردار بننے کے چکر میں اپنی آخرت کیوں خراب کر رہے ہیں - ان غریبوں کو اگر مین روڈز پر ریڑھی لگانے کی اجازت نہیں ہے تو گاڑیوں کو بھی وہاں کھڑا ہونی کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور اگر ریڑھی بان ٹریفک جام کا سبب بنتے ہیں تو ہیوی ٹریفک کو بھی اندرون شہر گزرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے - پارنگ اور ہیوی ٹریفک کی آمد و رفت روکنے پر تو افسران کے پر جلتے ہیں لیکن غریبوں کو پرچوں کی دھمکیاں دیکر ان سے ہزاروں روپے کا جرمانہ وصول کرنا ان کا دبنگ اسٹائل گردانا جاتا ہے  
اگر کسی صورت سڑک پر ریڑھی لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی تو حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان غریب ریڑھی بانوں کےلئے الگ سے جگہ مختص کرے - کسی اچھے سے روڈ کو فوڈ سٹریٹ بنا کر سب کو وہاں شفٹ کر دے - کوئی نہ کوئی متبادل مظام تو دے نا - یہ نہیں ہو سکتا کہ ان کی ریڑھیاں ضبط کر کےان سے ہزاروں روپے جرمانہ وصول کرو - بعد میں وہ غریب چاہے بھاڑ میں چلا جائے - ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں  لہذا ایسا ظلم بند کیا جائے۔ 

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

:) :)) ;(( :-) =)) ;( ;-( :d :-d @-) :p :o :>) (o) [-( :-? (p) :-s (m) 8-) :-t :-b b-( :-# =p~ $-) (b) (f) x-) (k) (h) (c) cheer
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top