![]()
تحریر۔۔ملک نذر حسین عاصم
0333 5253836
شہری علاقے ہوں یا دیہی آبادیاں،پڑھا لکھا طبقہ ہو یا ناخواندہ افراد،امیر ہوں یا غریب کسی نہ کسی وجہ سے خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تشدد کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے جسطرح غریب طبقے میں جنسی و جسمانی تشدد اور امیر طبقے میں زبانی،نفسیاتی اور جذباتی تشدد اور ہر گذرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے حوا کی بیٹی آخر کب تک ظلم کی چکی میں پستی رہے گی؟کب تک ظلم سہے گی؟ہم صرف خواتین کا عالمی دن منا لینے سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے یا خواتین کے مظالم کے خلاف قوانین پاس کرواکے خوشی کا اظہار کر لیتے ہیں مگر یہ ناکافی ہے۔ اتنا کر لینے سے خواتین پر ہونے والے مظالم کا خاتمہ کیسے ہو سکتا
ہے؟
پاکستانی خواتین کے ایک غیر رسمی مطالعے اور ایک اندازے کے مطابق کم ازکم 80 فیصد عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہیں جبکہ روزانہ تشدد کے بے شمار واقعات الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا حصہ بنتے ہیں اور بے شمار ایسے واقعات ہیں جو نہ صرف گھروں اور محلوں تک محدود رہ جاتے ہیں اور منظر عام پر نہیں آتے اور نوبت یہاں تک آگئ ہے کہ مرد نے تشدد کرنا اور عورت نے برداشت کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھ لیا ہے اور معاشرتی المیہ یہ بھی ہے کہ خواتین کی اکثریت یہ بات گھر سے نکالنا تو دور کی بات،اس موضوع پر بات کرنا بھی پسند نہیں کرتیں اور اگر کوئ خاتون اپنے ساتھ ہونیوالے تشدد کے خلاف آواز اٹھا بھی لے تو اسکو کوئ اہمیت نہیں دی جاتی کہ یہ تو ازل سے ہی ہو رہا ہے اور ابد تک ہوتا رہے گااور اسطرح وہ آواز کو نقارخانے میں طوطی کی آواز سن کر رد کر دیا جاتا ہے۔
خواتین پر تشددمیں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور مسائل نسل در نسل ہماری وراثت میں منتقل ہو رہے ہیں امتیازی سلوک تو ہمارے گھروں سے ہی شروع ہوتا ہے نام نہاد عزت کے نام پر قتل،جہیز نہ لانے پر تشدد، طعنے،انتہائ فرسودہ اور جاہلانہ رسم ورواج کی بھینٹ چڑھا دینا،جائیداد وراثت میں حصہ نہ دینا،خواتین کے چہروں پر تیزاب ڈالنا اور بچیوں کو علم کی روشنی سے دور رکھنا وغیر۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیر فرسودہ رسمیں کس نے بنائ ہیں جب صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے تو بے شمار برائیاں جنم لیتی ہیں۔ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ہماری آبادی کا تریپن فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے لیکن ہم انہیں نظرانداز کر رہے ہیں۔
دنیا کا کوئ بھی معاشرہ خواتین کو صنفی انصاف اور انکے بنیادی حقوق دیئے بغیر مہذب نہیں کہلا سکتا،اسی طرح اگر شرح خواندگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہماری دیہی آبادیوں میں خواتین کی تعلیم پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی جبکہ پوری دنیا کے مفکرین اور فلسفیوں نے ایک مرد کی تعلیم کو صرف ایک مرد کی جبکہ ایک عورت کی تعلیم کو ایک خاندان کی تعلیم قرار دیا ہے اسی لئے خواتین کی تعلیم پر زور دیا ہے لیکن ہم محض دعوے کرنے کے قائل ہیں دعووں سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔
ہمیں آج اپنے خیالوں ،زبانی باتوں اور صرف دعووں سے باہر نکل کر عمل کی دنیا میں قدم رکھنا ہے یہ وقت کی ضرورت ہے ہمیں اپنی فرسودہ سوچیں تبدیل کرنا ہونگی رویوں میں مثبت تبدیلی لانا ہوگی۔ ہم نے عورت پر جبر اور زیادتی کرتے وقت کبھی نہیں سوچا کہ یہ بھی کسی کی بہن بیٹی ہے لیکن جب ہم بہن بیٹی سسرال جاتی ہے تو اس پر زیادتی کے بعد ہماری چیخیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں یہ دوہرا معیار کیوں ہے اگر ہم اپنی بہو،بیٹی میں فرق روا نہ رکھیں تو معاشرے میں تبدیلی وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔
|
|---|
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)

0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں