ایک شخص ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ڈاکٹر بن گیا۔ اس نے شہر میں ماٹھا سا کلینک کھول لیا مگر کلینک کوئی اتنا خاص نہیں چلتا تھا۔ زیادہ تر ڈاکٹرصاحب مکھیاں ہی مارتے رہتے تھے۔
ایک دفعہ ایک فارمیسی ریپ انکے کلینک پر آیا اور اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ہماری اینٹی بائیوٹک لکھیں، ہم آپکا مکمل کلینک رینیویٹ کروا دیتے ہیں، آپکا کلینک مکمل ائرکنڈیشنڈ ہوگا۔ ڈاکٹرصاحب کو یہ آفر پسند آئی اور انہوں نے ہر مریض کو جسکو اس دوا کی ضرورت تھی نہ تھی جسکی اصل قیمت تو پچپن روپے تھی مگر دواپر نو سوپچپن روپے لکھی تھی تجویز کرنا شروع کردی۔جو بھی ڈاکٹرصاحب کا کلینک دیکھتا وہ ڈاکٹر صاحب کوبڑا ڈاکٹر سمجھتا اور علاج کے غرض سےآجاتا ۔
اگلی دفعہ فارمیسی کے ریپ نے ڈاکٹر صاحب کے کلینک دروازے پر ایک ٹوڈی کار لاکرکھڑی کی اور کہا کہ کمپنی نے آپ کیلئے ایک پیکج کا اعلان کیا ہے، آپ ہماری یہ ادویات اور سپلیمنٹ بھی اتنی مقدار میں چھ ماہ میں نکال دیں، تو یہ باہر کھڑی گاڑی آپکے نام کروا دی جائے گی، فی الحال آپ اس کو استعمال کریں، ڈاکٹر نے یہ دیکھا نہ وہ بس جو مریض آیا انکو وہ ادویات ٹھوکنا شروع کردیں، دیکھتے ہی دیکھتے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ۔
ہی چلا گیا،جس مریض کی نظر ڈاکٹر صاحب کی گاڑی پر پڑتی وہ ایک دفعہ دوائی لینے کلینک میں داخل ہوجاتا ۔
علاقے میں ڈاکٹرصاحب ایک نیک صفت انسان بھی مشہور ہوگئے کیونکہ بالکل کم ڈاکٹری فیس میں مریض چیک کرنا کچھ پیسے سب کے سامنے جمعہ والے دن مسجد میں دے دینے، اور کسی غریب مریض کو اپنی فیس معاف کردینے سے لوگوں نے انکی تعریفیں شروع کردیں، اب مختلف فارمیسیز نے ان سے رابطہ کرلیا، کوئی انکو ملائیشیا، انڈونیشیا، ہانگ کانگ اوردیگر ملکوں کے ٹور کرواتا، فیملی کیساتھ بھوربن فائیو اسٹارہوٹل میں مفت قیام اور وارے نیارےجس کو دیکھ کر لوگ اور متاثر ہوتے۔
اسٹاف مریضوں کو بتاتے کہ ڈاکٹر صاحب امریکہ ایک ہفتہ کا کورس کرنے گئے ہوئے ہیں۔ مریضوں کی تعداد کم ہونےکےبجائےبڑھتی ہی چلی گئی ، ڈاکٹر صاحب نے اپنی ایک بلڈنگ بڑی اور مصروف سڑک کے کنارے خرید لی۔سو مریض آتے کسی کو آرام آتا یا نہ آتا اگلے دن ایک سو بیس اور نئے مریض آجاتے، ڈاکٹر صاحب کے اسپتال سے جو بھی باہر نکلتا، پانچ چھ ہزار کی دوائوں کا ٹوکرہ اس کے ہاتھ میں ہوتا۔
ڈاکٹر صاحب نے پتھالوجی لیب والوں سے کمیشن سیٹ کرلیا، مریض کو کسی ٹیسٹ کی ضرورت ہیکہ نہیں مگر ہر ایک کم از کم دس ہزار کے ٹیسٹ ضرور کروانے ہیں۔جسکا چالیس فیصد کمیشن ہرپندرہ دن بعد انکے اسپتال پہنچ جاتا، ڈاکٹر صاحب نے تقریبآ ہر روز دو لاکھ کی دیہاڑی لگانا شروع کردی، ساتھ ہی انٹرنیٹ کنکشن نیا آیا تھا اورجاز، یوفون کی سیمیں بیچنابھی شروع کردی، جو مریض بھی ڈاکٹر صاحب کے ویٹنگ روم بیٹھاہوتا،انہیں انکا اسٹاف سیمیں خریدنے کی آفر لگا دیتا، ڈاکٹر صاحب نے باہر اسٹور والے سے بات کرکے اپنی کچھ پراڈکٹ بنوالیں اور اس اسٹور پر رکھوا دیں، ایک دوا اگر سو کی ملٹی نیشنل کمپنی کا ملتی تھی تو انہوں نے اپنی پلاسبو دوا پندرہ سو روپے والی لکھنا شروع کردی جو صرف انہیں کے اسٹور سے دستیاب ہوتی، مریض یہی سجھتا کہ ڈاکٹر صاحب نے تو اپنی صرف سو روپے فیس ہی وصول کی ہے۔
جب کاروبار اور پیسہ مزید بڑھا تو ڈاکٹر صاحب نے رئیل اسٹیٹ میں پیسہ اینوسٹ کر دیا، اب ڈاکٹر صاحب اسپتال میں صرف چار دن بیٹھتے اور باقی کام وہ رئیل اسٹیٹ میں لگاتے، دس کروڑ کی ایک بلڈنگ خریدی، ابھی خرید کے گھر ہی پہنچے کہ گیارہ کروڑ کی آفر آگئی کہ اگر بیچنی ہےتو بات کریں، ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ نہیں بارہ دو اور لے جائو، چناچہ ساڑھے گیارہ میں کیس ڈن ہوگیا، مریضوں کو ڈاکٹر صاحب نے کمیشن پردوسرے بڑے ڈاکٹروں کوریفرکرنا شروع کردیا، پہلےخود پیسے جھاڑے، پھر جب سب کچھ نچڑ گیا تو پھر ایک اور بڑے ڈاکٹر کی تعریفیں کرکے اسے ریفرکردیا، آپریشن کے تیس فیصد کمیشن پردس یاپندرہ مریضوں کو ریفرکرنا عام سی بات بن گئی، پھر اپنا ایک چھوٹا سے آپریشن روم بنالیا۔
ایک دفعہ راقم کو بھی اس ڈاکٹر سے ملنے کا اتفاق ہوا، ایک مریض جو راقم کا دوست تھا، اپنا چیک اپ کروانے ان ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے، راقم کو اچھا تو نہ لگا مگر دوستی میں چلا گیا، ڈاکٹر صاحب ایک مریض کا معائنہ کررہے تھے،راقم نےدیکھا ڈاکٹر صاحب نے اُس مریض کو کہا کہ آپکو اپنڈکس ہے فوری آپریشن نہ کروایاتو یہ پھٹ جائیگا اور موت واقع ہوسکتی ہے جلدی کریں۔ راقم یہ منظر دیکھ رہا تھا، اس کے بعد میرے دوست کو اس ڈاکٹر نے دیکھا اور دس ہزار روپے کی ادویات لکھ دیں، جس میں کچھ سپلیمنٹ بھی تھے، راقم فورآ سمجھ گیا مگر میرا دوست بہت خوش تھا کہ اب میں ٹھیک ہوجائوں گا، بولا یہ ڈاکٹر صاحب بہت بڑے ڈاکٹرہیں ہزاروں مریض دیکھتے ہیں انکا تجربہ بہت ہے، باہر سے پڑھ کر آئے ہوئے ہیں،میں خاموش رہا۔
جب برآمدے سے باہر نکلا تو ڈاکٹر صاحب کوآپریشن تھیٹر کیطرف جاتے دیکھا، راقم کو عجیب سا لگا کہ یہ تو ڈاکٹر سرجن نہیں، یہ مریض کا کیسے آپریشن کریگا۔ دوست مریض نے کہا کہ چلو چلتے ہیں راقم نے کہا کہ نہیں، تھوڑا انتظار کرتے ہیں ہال میں ٹھنڈی مشین لگی ہے اس کا مزا لیتے ہیں۔ دونوں وہاں بیٹھ گئے، دس منٹ بعد میں ڈاکٹر صاحب کو دوسرے دروازے سے باہر جاتے دیکھ لیا، وہ آپریشن تھیٹر کے پیچھلے دروازے سے نکل کر اسپتال سے جاچکے تھے، راقم تو اور بھی حیران ہوگیا، تجسس اور تیز ہوگیا، تھوڑی دیر میں آپریشن تھیٹر سے ایک اسسٹنٹ نکلا، وہ راقم کا ایک دوست نکل آیا، راقم فورآ اس کے پاس پہنچا اور گپ شپ لگانے لگا، وہ اسسٹنٹ راقم کو دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا اور اسپتال آنے کی وجہ پوچھی تو راقم نے اپنے مریض دوست کا بتایا وہ ہم دونوں کو کینٹین پر لے گیا اور چائے پلانے لگا۔
راقم کو تجسس کھائے جارہا تھا، آخر راقم نے اپنے اسسٹنٹ دوست جو کہ وہ اس اسپتال میں بطور او ٹی اے کام کررہا تھا،طریقے سے پوچھا کہ یار یہ ڈاکٹر خود تو چلا گیا ہے، یہ آپریشن کس نے کیا ہے؟ وہ تھوڑا سا ہنسا اور کہا کہ میں نے؟ راقم نے پھر پوچھا تم یہ کیسے کرسکتے ہو؟ وہ بولا میں نے بھی کب کیا ہے، ڈاکٹر صاحب نے اسے ہلکا سا اینتھیزیا دیا ہے، مجھے اس نے کہا کہ اس کے پیٹ پر ہلکا سا بلیڈ مارکر بس اسٹیچ کردو مگرمریض کو آپریشن تھیٹر سے ایک گھنٹے بعد نکالنا، اب یہ مریض تین دن ہمارے پاس رہے گا اور ڈاکٹر نے اس سے دو لاکھ روپے لے لینے ہیں۔ اس مریض کو اپنڈکس نہیں تھا، بس ایک آدھ فلیجن انجکشن سے یہ بالکل ٹھیک ہوجائےگا۔ راقم یہ سُن کر بہت ہی حیران اور پریشان ہوا۔
معزز قارئین!! اب میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا وہ ڈاکٹر چھوٹا ڈاکٹر ہے یا بڑا ڈاکٹر ہے؟؟؟ آپ اس ڈاکٹر کے عمل کو کیسے دیکھتے ہیں؟؟؟ضروری نہیں کہ تمام ڈاکٹرز ایسے ہی ہوں۔ مذکورہ فعل صرف کالی بھیڑوں کا ہے۔ یقیناً فرشتہ صفت مسیحا بھی معاشرہ میں موجود ہیں لیکن بہت کم، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا نظام ناقص، فاسق، بیکار، فرسودہ، ناکارہ، تکلیف دہ اور عدل و انصاف سے خالی ہے اگر یہی نظام مزید چند سالوں جاری رہا تو یقینا ریاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی، نظام ریاست کی ناکامی کا اعتراف سپریم کورٹ کے جسٹس صاحبان کرچکے ہیں اور موجودہ سمیت ماضی کی حکومتوں کو بارہا بار یاد دلاتے رہے کہ نئے آئین کے تحت اسلامی نظام ناگزیر ہوچکا ہے، اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور تاقیامت قائم و دائم رکھے آمین ثما آمین۔۔۔!!
جاوید صدیقی جرنلسٹ، کالمکار، محقق، تجزیہ نگار، براڈکاسٹر، اینکر کراچی۔ 03122514429
|
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں