ٖ "سبز باغ دیکھتے جائیں اور جیسے تیسے گزارہ کریں" وائس آف چکوال (VOC)
ہیڈ لائن

2:26 PM استاد کا احترام


   ڈاکٹر زاہد عباس چوہدری
تبدیلی کا نعرہ سنتے ہی اور اسلام آباد میں دھرنے کی رونقیں دیکھتے ہی بہت سے لوگ پی ٹی آئی کی طرف راغب ہوئے اور تبدیلی کی توقع لگا بیٹھے,  ہم عمران خان اور موجودہ حکومت کے نہ چاہنے والے ہیں اور نہ ہمیں ان سی کسی قسم کی تبدیلی کی توقع تھی ہم نے اس وقت بھی اپنی طرف سے کوشش کی کہ زیادہ نہیں تو ہمارا حلقہ احباب ہی ہماری بات کو سمجھ لے لیکن اس وقت کا رنگین ماحول اور تبدیلی کے نعرے ایسے لچھے دار اور سبز باغ دکھانے والے تھے کہ کسی کو ہماری بات اچھی نہ لگی اور تبدیلی کے شائقین تبدیلی کے ہاتھوں خود شکار ہو گئے اور سب سے عجیب بات کہ بڑے تھینک ٹینک کی توقعات بھی بہت جلد زمین بوس ہو گئیں جو عمران خان اور اس کی حکومت سے کچھ ایسی توقعات لگا بیٹھے تھے جن پر اب وہ خود بھی شرمندگی محسوس کر رہے ہوں گے۔

 کنگ میکروں نے خان کو کنگ تو بنا دیا مگر کنگ والی صفات قدرت کی طرف سے ودیعت شدہ ہوتی ہیں کسی انسان میں ڈالی نہیں جا سکتیں,  پی ٹی آئی کے شروع کے نعرے,  دعوے اور خان صاحب کی اوائل دور کی تقاریر سننا اب بھی کبھی کبھی دلچسپ لگتا ہے تو وقت گزاری کے لیے ہم بھی سن لیتے ہیں لیکن اگر یہی چیزیں کسی پی ٹی آئی کے چاہنے والے کو مدعو کرکے سنائیں تو وہ شرمندگی سے آپ کا سر کھول دے گا اس لیے ایسی غلطی سے گریز کیجیے گا کیونکہ ابھی جیالوں میں تبدیلی کے کچھ جراثیم باقی ہیں۔

آئیے ذرا پی ٹی کے دعوں,  نعروں اور آج تک کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تا کہ آپ کو سمجھنے میں آسانی رہے کہ اب تک ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا,

معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے کتنے پیارے نعرے تھے, ڈالروں کی بارش ہوگی,  بیرون ملک سے لوگ نوکریاں کرنے پاکستان آئیں گے,   50 لاکھ لوگوں کو گھر دیے جائیں گے اور ایک کروڑ لوگوں کو برسر روزگار کرنے کے رنگیلے خواب,  دنیا کی سب سے اچھی معاشی ٹیم پی ٹی آئی کی حکومت میں ہو گی جو سب کچھ بدل کے رکھ دے گی,  چوروں کا احتساب ہو گا , کسی کو این آر او نہیں دوں گا,۔

 کہاں کا احتساب اور کون سا احتساب,  کون سے گھر اور کون سی نوکریاں,  کس چور کا حساب جب ڈاکو سارے گود میں بٹھا رکھے ہوں؟ اور کون سی اچھی معاشی ٹیم کہ ایک وزیر یا مشیر کی ناکامی کے بعد عوام کو مزید ذلیل کرنے کے لیے دوسرے کو عوام کے اوپر لا بٹھانا اور کون سا عوامی ریلیف؟ اس ملک میں کبھی ایسا وقت دیکھنے کو نہیں ملا جس طرح عوام کو دن میں تارے اس حکومت نے دکھائے ہیں,  چوروں کا کہاں کا احتساب جبکہ اپنی ہی حکومت میں مافیا اور کرپٹ لوگوں کی بھرمار ہو چینی بحران, پٹرول بحران کا,  گندم بحران اور جانے کون کون سے بحرانوں کا سامنا ہے اور کرنا پڑے گا,  آب کو نوکری نہیں ملی تو کوئی بات نہیں, آپ بے روزگار ہیں تو فکر کس بات کی اور نوکری والوں سے نوکری چھن گئی تو نو پرابلم,  چینی, آٹا , پٹرول مہنگے ہوئے تو آپ کو کیا مسئلہ, اگر حکومت کی انڈوں, مرغیوں اور کٹوں والی سکیمیں بری طرح سے فیل ہوئی ہیں اور معیشت بری طرح سے تباہ ہو چکی یے تو آپ کو کسی سوچ بچار اور پریشانی کی ضرورت نہیں۔

  اگر لاک ڈاؤن سے آپ کے کاروبار ختم اور چولہے ٹھنڈے ہوئے تو کیا ہوا تبدیلی حکومت نے 12 ہزار روپے فی خاندان بھی تو دیے یہ الگ بات ہے کہ ایک کروڑ یا اس سے زائد لوگوں کو 12 ہزار فی خاندان دے کر 5 کروڑ گھروں کے بل میں 250 سے 350 پچاس روپے اضافی ڈال دیے تو کون سی قیامت آ گئی, لاک ڈاؤن کے دوران بجلی کے بل میں ہر صارف کو خصوصی رعایت کے بعد اگلے دو تین مہینے آپ کا بجلی کا بل تین چار ہزار فالتو بھی آتا رہے تو کیا ہوا ریلیف بھی تو آپ کو ہی ملا تھا۔

 اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ, گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ  اور زندگی کے ہر شعبے کی تباہی اور بربادی اور ضروریات زندگی کی ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ملکی قرضے جو صرف سوا دو سال میں لیے گئے اتنے پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں لیے گئے۔

  میڈیا کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے اور ریجنل اخبارات کے اشتہارات بھی بند کر دیے گئے تو کوئی بڑی بات نہیں اور اس حکومت کا آج تک ہر منصوبہ ناکامی سے دوچار ہو ہے تو آپ کو کیا تکلیف ہے, آپ نے صرف یہ کرنا ہے آپ نے گھبرانا نہیں ہے, اور سکون کی تلاش یہاں کرنے کی کوشش بھی نہ کی جائے سکون صرف قبر میں ہے۔

"ایک بات یاد رکھیں سب کا احتساب ہوگا اور چوروں کو نہیں چھوڑوں گا, کسی کو کوئی این آر او نہیں دوں گا"

ایک سوشل میڈیا کا لطیفہ یاد آ رہا ہے توجہ فرمائیے گا 
‏ایک چور چوری کرنے کے لیے ایک شیخ کے گھر پہنچا,
شیخ صاحب گھر کےصحن میں لیٹے تھے چور نےاپنی چادر زمین پر بچھائی اور خود کمرے سے سامان لینے چلا گیا
شیخ نے اسکی چادر اٹھا کر چھپا لی اور پھر سے سو گیا
چور آیا تو اس نے دیکھا، چادر غائب ھے
اس نے اپنی قمیض اتار کر بچھائی اور پھر اندر سے سامان لینے گیا,‏شیخ نے قمیض بھی اٹھا کر چھپا لی, چور باھر آیا تو  قمیض بھی غائب پائی
اب کی بار اس نےحوصلہ کرتے ھوئے اپنی آخری ملکیت دھوتی بھی اتار کر بچھا دی اور ایک بار پھر اندر سامان لینے چلا گیا شیخ  نےدھوتی بھی اٹھا لی
اب جب چور باھر آیا تو دھوتی بھی غائب پائی, چور بے چارہ ننگا اورانتہائی بیچارگی ‏کی حالت میں پریشان کھڑا تھا کہ شیخ صاحب نے اٹھ کر چور چور کا شور مچا دیا۔
چور نے انتہائی بے چارگی سے ایک تاریخی جملہ ادا کیا:

"او ظالما ،،، اجے وی میں ای چور آں"

"ساٹھ 60 کا پٹرول105 کا، 600 کا آٹا 1450 کا، 100 کا ڈالر167 کا، 30000 ارب کا قرضہ 43000 ارب ہوگیا، ‏8ارب کی میٹرو 108ارب کی، 30 وزراء کی جگہ 50 وزراء کرپشن میں ورلڈ انڈیکس میں ترقی، بےروزگاری بڑھ گئی، مہنگائی آسمانوں کو چھونے لگی، سٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی، آٹا گھی چینی دوگنی سے بھی زیادہ قیمت پر اور ڈاکو کابینہ میں ساتھ بیٹھے ہیں اور پنجاب میں سیاہ سفید ان کے حوالے ہے لیکن چور ابھی بھی سابقہ حکمران ہیں؟

انتہائی معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ حکومت وقت نے عوام کو اور تبدیلی کے خواہشمند حضرات کو اب تک کی کارکردگی سے بری طرح سے مایوس کیا ہے۔

 پہلے تو اوپر چور بیٹھے تھے تو نیچے کرپشن ہوتی تھی اور اب جبکہ اوپر حاجی بیٹھے ہیں تو ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا معیشت مزید سے مزید تر تباہ کیوں ہو رہی ہے ,دنیا کی وہ سب سے بہترین معاشی ٹیم کہاں ہے,  نوکریاں اور گھر خواب و خیال ہوئے یو ٹرن لینے کی ایسی مثال قائم کی گئی کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اندراج کی حقدار ٹھہرتی ہے۔

 عوام سے گزارش ہے ابھی اس حکومت کا دور اقتدار رہتا ہے اگر آپ پہ مشق ستم یہی رہے یا اس میں اضافہ بھی ہو جائے تو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کو اس حکومت پہ فخر کرنے کی ضرورت ہے جو مشکل ترین حالات میں بھی آپ کو سکون کے لیے ایک بہترین جگہ قبر بتا چکی ہے اور کبھی نہ گبھرانے کی تلقین کر چکی ہے۔

 بس "سبز باغ دیکھتے جائیں اور جیسے تیسے گزارہ کریں" تبدیلی تو تا حال ایڑیاں اٹھا اٹھا کے دیکھنے سے بھی نظر نہیں آ رہی.۔

بقول شاعر 
یہ داغ‌ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں

ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی

نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں‌ آئی

, کرپشن میں اضافے,  مہنگائی میں اضافے,  بیرونی قرضوں میں کئی گنا اضافے اور معیشت کی بری طرح سے تباہی ان سب کے لیے میرا حکومت وقت کو مشورہ ہے کہ یہ تمام جرائم سابقہ حکمرانوں پہ ڈال دیے جائیں اور صرف ڈال ہی نہ دیے جائیں بلکہ کرپشن کے مزید کیس بھی بنائے جائیں تو ممکن ہے غیرمرئی تبدیلی کسی کو نظر آ ہی جائے؟  میرا خیال ہے مزید وضاحت کی ضرورت نہیں کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا میڈیا عوام کو اتنی آگاہی دے چکا ہے کہ نتیجہ عوام خود اخذ کر سکتی ہے اور آخر میں بقول شاعر کچھ اس طرح کے حالات آنے والے ہیں۔

بقول شاعر 
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا

یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے

آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ

منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا

مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری

اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا

جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ

مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا
اور 
ہم باز آئے تبدیلی سے 
اٹھا لو ...... پاندان اپنا 

دعا ہے کہ تبدیلی کے انجام میں  مذکورہ بالا شاعری جیسے دگرگوں حالات آنے کی نوبت نہ ہی آئے ,اللہ آپ کا ہم سب کا اور اس ملک کا حامی و ناصر ہو آمین

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

:) :)) ;(( :-) =)) ;( ;-( :d :-d @-) :p :o :>) (o) [-( :-? (p) :-s (m) 8-) :-t :-b b-( :-# =p~ $-) (b) (f) x-) (k) (h) (c) cheer
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top