✒️ملک نذر حسین عاصم
03335253836
نوجوان موت پر پورا شہر غمزدہ تھا تین گھروں کا واحد بیٹا اور پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی' شاید اس خوبرو جوان کی موت پر آسمان نے بھی اشک برسائے ہونگے والدین، تایا، چچا، ماموں، اہل محلہ دوست احباب اور جوان بہنوں کے بین دل چیر رہے تھے۔ ہر آنکھ اشکبار تھی آسمان کی آنکھ نے شاید اس سے پہلے کبھی اتنا بڑا جنازہ نہ دیکھا تھا۔ راحیل پڑھا لکھا تنومند خوبرو جوان سیکنڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ سیرو سیاحت کا دلدادہ دوستوں کے ہمراہ پکنک پر جانے میں سب سے آگے۔بذلہ سنجیوں کا ماہر ہنس مکھ حاضر جواب۔
بس آج بھی دوستوں کے ہمراہ بائیک پر دور افتادہ مقامات کی تفریح پر نکلا تھا۔ ویران سڑکوں پر نوجوانی کا جوش اور دوستوں کی اٹھکیلیاں۔انجان رستوں پر خوفناک حد تک تیز رفتاری کا مظاہرہ۔ پرپیچ راستوں پر دوستوں کا قافلہ قہقہے بکھیرتے رواں دواں تھا کہ برق رفتاری کے باعث موٹر سائیکل کنٹرول سے باہر ہوگیا اور بلند وبالا پہاڑی سے قلابازیاں کھاتا ہوا نہ جانے کس مقام پر جا رکا۔ دوست راحیل کو آوازیں دیتے رہے لیکن آج اس نے نہ سننے کی قسم کھا رکھی تھی ناواقف علاقہ نامحرم لوگ نہ کوئی دوست نہ شناسا کس کو مدد کیلئے پکاریں۔ دوستوں کی آہ و بکا دنیا کے اس پار تک سنائی دے رہی تھی مگر سب بے بس تھے گہری کھائی اور معصوم راحیل۔سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آرہا تھا لوگ جب مدد کیلئے اس مقام تک پہنچے۔ تب بہت دیر ہوچکی تھی راحیل دوستوں کا ساتھ چھوڑ کر ملک عدم کیلئے روانہ ہوچکا تھا۔ دوستوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ آن کی آن میں کیا ہوگیا۔ہم تو یہاں سیر کیلئے آئے تھے لیکن یہ کیا ہوگیا ہمارا بہترین دوست ہمیں چھوڑ گیا۔ سب دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے لیکن راحیل تمام باتوں سے بے نیاز بے سدھ پڑا تھا والدین پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ انسان سوچتا کیا ہے اور ہوتا کیا ہے انسان تدبیریں بناتا ہے تو تقدیر ہنستی ہے کہ تم سوچ کیا رہے ہو اور تمہارے ساتھ کیا ہونیوالا ہے تمہیں نہیں معلوم۔۔؟
تقدیر کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں جن میں ردوبدل کی گنجائش نہیں ہوتی۔زندگی میں ہم کیا کیا خواب دیکھتے ہیں کچھ پورے ہوتے ہیں اور کچھ ادھورے رہ جاتے ہیں
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، آئے روز ہمیں ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں لیکن ان واقعات سے ہم نے کبھی سبق نہیں سیکھا۔ ہم ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ موت تو دوسروں کیلئے ہے ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔
نوعمر اور ناسمجھ بچوں کی ضد کے سامنے ہم ہتھیار ڈال دیتے ہیں بیٹے نے موٹر سائیکل کی فرمائش کی تو کیسے ٹال سکتے ہیں پھر مثال بھی دی جاتی ہے کہ فلاں فلاں کے بیٹے بھی تو ہمارے ننھے کی عمر کے ہیں انکے پاس بھی تو بائیک ہے تو ہمارے ننھے کے پاس کیوں نہ ہو؟ جب جلدی دہی دودھ یا سبزی منگوانا پڑے تو ننھا دومنٹ میں لے آئے گا دوسروں کی منت کیوں کرتے پھریں۔ جب بچوں کو گھر سے ہلہ شیری مل جاتی ہے تو وہ نڈر ہوجاتے ہیں یا پھر باغی بھی۔
بچوں کے پاس جب بائیک آجائے تو وہ چلاتے نہیں اڑاتے ہیں دوستوں میں موٹر سائیکل ریس شروع ہوجاتی ہے پھر والدین کے نصیب۔
پیارے بچو! موٹر سائیکل ایک ایسی غلط سواری ہے جو گرتے وقت سوار کو تحفظ فراہم نہیں کرپاتی۔اکثر موٹر سائیکل حادثات میں سر متاثر ہوتا ہے جو جسم کا سب سے قیمتی حصہ ہے اور مقدر والے ہی دوبارہ زندگی حاصل کرپاتے ہیں بہت سے حادثات میں دیکھا گیا ہے کہ بچہ دائمی معذور ہوگیا ٹانگ یا بازو بیکار ہوگئے آنکھ ضائع ہوگئی ناک کٹ گئی چہرہ متاثر ہو گیا مستقل معذوری گلے پڑ گئی ایسی زندگی بھی ایک بوجھ ہوتی ہے جب انسان اپنی معذوری کو دیکھتا ہے تو اپنے آپ کو کوستا ہے کہ میں نے آخر ایسا کیوں کیا؟ کاش میں یہ کام نہ کرتا تو آج سب کی طرح مکمل انسان ہوتا۔ پھر رشتوں کے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں مستقبل کی فکر گھن کی طرح کھانے لگتی ہے اس معذوری کے عالم میں کیا روزگار کرونگا آج مکمل انسان کو روزگار نہیں ملتا تو معذور کو کون گلے لگائے گا معذوری کے باعث بندے میں احساس کمتری پیدا ہونے لگتا ہے اور وہ زندگی سے اکتاہٹ محسوس کرنے لگتا ہے انتہاپسندی کے واقعات کچھ ایسی وجوہات کی پیداوار بھی ہیں ہم رشتے داروں اور بہن بھائیوں میں جب سب کے اعضاء سلامت دیکھتے ہیں تو دل ہی دل میں اپنے آپ کو صلواتیں سناتے ہیں لیکن اب کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
خدارا اپنے بچوں کی اچھی تربیت کیجئیے انہیں معتدل اور اچھا شہری بنائیے زندگی کے منفی اور مثبت دونوں پہلو ضرور دکھائیے شاید وہ دوسرے بچوں سے مختلف ہو اور آپکے بڑھاپے کا سہارا بن سکے۔
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.