حمل ٹھہرانے کے بعد شوہر نے ان پر گندے الزامات لگائے اور انھیں حمل کی حالت میں مارا پیٹا اور رات کے وقت گھر سے نکال دیا
جب میں نے پہلی شادی کے بعد دوبارہ نوکری پر جانا شروع کیا تو میں نے عجیب تبدیلی دیکھی، میں نے شوہر سے تقاضا کیا کہ وہ میری بیٹی کو بھی؟ سلگتی معاشرتی کہانی سامنے آگئی۔
تفصیلات کے مطابق میری پہلی شادی آج سے سات سال پہلے ہوئی۔ وہ لوگ ہمارے جاننے والے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرے سابقہ شوہر کے گھر والے میرا رشتہ لینے آئے تو انھوں نے ہماری اتنی خوش آمد کی اور پیار دکھایا کہ میرے گھر والوں سمیت، میں بھی اس رشتے کے لیے فورا تیار ہو گئی۔ بیٹی بنا کر رکھوں گی، تمھیں زندگی میں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوگی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ کہنا تھا عائشہ وقار (فرضی نام)کا جن کے لیے پہلی شادی کی ابتدا کسی خواب سے کم نہیں تھا۔ شروع میں اپنے سابقہ شوہر کا رویہ دیکھ کر انھیں لگا جیسے اس شخص سے زیادہ تو دنیا میں مجھے کوئی پیار نہیں کر سکتا۔ انھوں نے شادی کے لیے فورا ہاں کر دی اور کراچی سے لاہور آگئیں۔ شادی کے بعد میں نے دوبارہ نوکری پر جانا شروع کر دیا۔ لیکن شادی کے پہلے مہینے ہی معاملات تھوڑے عجیب ہونے لگ گئے۔ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے کئی ملکوں میں خواتین کے لیے اپنی مشکلات کے حل میں طلاق لینا قابل قبول نہیں سمجھا جاتا جس کی وجہ سے خواتین کو اکثر ساری زندگی بدسلوکی اور ذہنی دبا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عائشہ نے بتایا کہ میری ساس اور شوہر مجھے کہنے لگے کہ تمھیں اپنے گھر والوں سے جائیداد میں حصہ مانگنا چاہیے۔۔۔ جب میری تنخواہ آئی، میرے شوہر نے وہ ساری تنخواہ مجھ سے لے لی۔ اور پھر یہ سب عام ہونے لگا۔ وہ مجھے خرچہ نہیں دیتا تھا لیکن مجھ سے لیتا تھا۔ میں جب اس بات کا ذکر گھر والوں سے کیا تو کہنے لگے کہ کوئی بات نہیں میاں بیوی کا پیسہ ایک ہی ہوتا ہے، اس لیے تم زیادہ فضول مت سوچو۔ عائشہ اور ان جیسی کئی خواتین کے لیے شادی کا تجربہ اس قدر خوبصورت نہیں ہوتا جیسا عام طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ سسرال والوں کے اعتراضات دور کرنے کے لیے ان کے گھر والوں نے جائیداد بھی ان کے نام کردی۔ مگر ایک، ایک کر کے مطالبات بڑھنے لگے اور رویے بھی بدل گئے۔
وہ بتاتی ہیں کہ میرے شوہر نے مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ تم اپنا پلاٹ میرے نام کر دو میں، وہاں آفس بنا لوں گا۔ میں نے یہ بات ٹال دی۔۔۔ اس کے بعد مجھے رویوں میں واضح تبدیلی نظر آنے لگی۔ میری ساس اور شوہر مجھ سے بدتمیزی سے بات کرنے لگے۔ جب میں دفتر سے گھر آتی کو آکر گھر کے سارے کام کرتی۔ حالانکہ گھر میں ملازموں کی فوج تھی۔ ایسے حالات میں والدین بھی اس مشکل سے دوچار ہوتے ہیں کہ بیٹی کا گھر بسانے میں بھلا انھیں کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میں جب بھی اپنی تکلیف کا اظہار اپنے گھر والوں سے کرتی تو وہ مجھے ایک ہی جملہ کہتے کہ بیٹا لڑکیوں کو گھر بسانے کے لیے بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مگر یہ جملہ عائشہ کو مزید کمزور کر دیتا تھا۔ جب نئے گھر میں ایک، ایک کر کے راز کھلنے لگے تو ان کی برداشت کی حد ختم ہوگئی۔
میرا شوہر شراب نوشی بھی کرتا ہے کیونکہ شراب کے نشے میں دھت وہ مجھ سے بدتمیزی کرتا۔ شادی کے چند ماہ بعد ہی میں امید سے ہو گئی۔ جب میرے شوہر کو یہ پتا چلا اس نے کہا کہ ‘یہ تو میرا بچہ ہے ہی نہیں ‘۔ جب میں نے یہ سنا تو میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ اس دن کے بعد وہ گھر میرے لیے جہنم بن گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ پھر ایک دن ان کے شوہر نے ان پر گندے الزامات لگائے اور انھیں حمل کی حالت میں مارا پیٹا اور رات کے وقت گھر سے نکال دیا۔ عائشہ کہتی ہیں کہ اس وقت وہ لاہور شہر میں اکیلی تھیں لیکن انھیں بہت حیرانی ہوئی جب ان کے گھر والے پھر بھی ان کی صلح کرانا چاہتے تھے۔ انھیں محسوس ہونے لگا کہ ان کی اپنی کوئی ذات، کوئی گھر نہیں۔ بیٹی کی پیدائش پر بھی ان کے سابقہ شوہر نے دہرایا کہ یہ میری بچی نہیں ہے۔ آپ کی بیٹی کے غیر مردوں سے تعلقات تھے، ان میں سے کسی کی بچی ہوگی۔
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.