ٖ بڑھتے ہاتھ۔۔ وائس آف چکوال (VOC)
ہیڈ لائن

2:26 PM استاد کا احترام

ملک نذر حسین عاصم

0333 5253836

--++--++--++--++---

عدالت کی گھنٹی بجی۔ آرڈر آرڈر آرڈ۔۔  "عدالت کفیل احمد ولد فلاں فلاں کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت جبران انجم کے قتل کی پاداش میں سزائے موت اور پندرہ لاکھ روپے ہرجانے کی سزا سناتی ہے"

کمرہ عدالت میں موجود کفیل کے لواحقین کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔سب ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے کہ ابھی کفیل کی عمر ہی کیا تھی ابھی تو اسے نوکری کی تلاش کرنا تھی ماں باپ کیلئے سہارا بننا تھا ہر ماں باپ نے جوان اولاد کے حوالے سے سہانے خواب دیکھ رکھے ہوتے ہیں کہ اب ہماری اولاد بڑی ہوگئی ہے ہمارے اچھے دن شروع ہوجائیں گے پھر کفیل کے جوان ہونے پر سزائے موت کا آرڈر۔

اسکو پھانسی ہوگئی تو کون اس گھر کا سہارا بنے گا؟ بیمار باپ کیلئے دوائی بہنوں کا جہیز۔ برادری تو ناک میں دم کردے گی ۔جی ہاں اصل عداوت تو اپنوں میں چلتی ہے جنہیں ہم خون کے رشتے کہتے ہیں اور کچھ ہو نہ ہو ہم رشتے داروں سے خوب مقابلہ کرتے ہیں حالات جیسے بھی ہوں انکے سامنے زیر نہیں ہوتے لیکن کفیل کی سزائے موت سے تو سب کو سانپ سونگھ گیا تھا

کسی کا کیا قصور سب کیا دھرا اسکی والدہ کا تھا کفیل جب سکول میں پڑھتا تھا تو کلاس فیلوز کی چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتا اور جب چوری کرکے وہ چیزیں گھر لاتا تو ماں اسکی حوصلہ افزائی کرتی بس اسی حوصلے نے اسے عادی چور بنادیا وہ روزانہ رات گھر سے نکل جاتا اور واپسی پر بہت سا سامان ماں کو لاکر دیتا'اسکی  ماں بھی انتہائی قسم کی لالچی تھی اسے اولاد سے کم اور چیزوں سے زیادہ محبت تھی وہ اپنے بیٹے پر فخر کرتی کہ میرا بیٹا روزانہ اتنا سامان لے آتا ہے روز چوری کا سامان گھر میں آتا رہا اور اسکی ماں تکبر سے پھولے نہ سمارہی تھی 

یہ کیسی ماں تھی جو غلط رستے پر چلنے والے بیٹے کی ڈھارس بندھاتی رہی۔مائیں تو بھٹکے ہوئے بچوں کو راہ راست پر لاتی ہیں۔ انہیں چیزوں سے نہیں اولاد سے محبت ہوتی ہے یہ ماں تھی یا سائن جو اولاد کو چور بنا کر فخر کررہی تھی کیا اسے نہیں معلوم تھا کہ چور کا معاشرے میں کیا مقام چور کی سزا کیا ہے؟ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ بیٹے کے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو نہ روک سکی اور کفیل کا شمار شہر کے بڑے چوروں میں ہونے لگا اس نے مال متاع تو جمع کرلیا تھا لیکن ہر آنیوالے دن کوئی نہ کوئی واردات اسکے ذمے ہوتی تھی۔پولیس گھر آتی اور اکثر کفیل تھانے کا مہمان ہوتا پھر بھی اسکی لالچی ماں اپنی روش تبدیل نہ کرسکی ۔

ایک دن جب کفیل کسی بڑے گھر میں چوری کیلئے اترا تو وہ لوگ جاگ گئے اور ہتھیار اٹھالئے  کفیل نے جب انکے ہاتھوں میں ہتھیاروں کی چمک دیکھی تو اس کے پاس کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ فائر کھول دے چنانچہ اس نے اپنے جان بچانے کی خاطر اندھا دھند فائرنگ کردی جسکے نتیجے اس گھر کے دو افراد زندگی کی بازی ہار گئے فائرنگ کی آواز سے اہل محلہ محتاط ہوگئے اور انہوں نے مل جل کر کفیل کو قابو کر لیا اب کفیل کے ذمے جرم ناقابل معافی تھا اسکے مخالف گواہ طاقتور تھے کیس چلتارہا عدالتیں حسب روایت تاریخ پر تاریخ دیتی رہیں اور آخر یوم احتساب آ پہنچا فیصلے کادن۔ اور آج کفیل کو سزائے موت کا آرڈر ہوچکا تھا یہ سنکر اسکی ماں پاگلوں کی طرح دیواروں کو گھور رہی تھی محلے کا کوئی بھی شخص کفیل کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھا بھلا چور کا بھی کوئی ساتھ دیتا ہے؟ اور اپنوں سے تو انہوں نے پہلے ہی بگاڑ رکھی تھی سو اب کیا ہوسکتا تھا۔نہ انکے وسائل تھے نہ کوئی ہمدرد و غمگسار۔ آج کفیل بھی ماں کیطرف غضبناک آنکھوں سے دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہاہو۔ ماں ۔مجھے اس سٹیج تک پہچانے کی زمہ دار آپ ہیں اگر آپ نے بچپن میں میرے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو روکا ہوتا مجھے سمجھایا ہوتا کہ بیٹا چوری بری عادت ہے تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ جو مائیں غلط کاموں میں اولاد کی ہمت بندھاتی ہیں انکو ایک دن ایسا بھی دیکھنا پڑتا ہے جیسا کفیل کی ماں نے دیکھا ہے۔اپنی اولاد کی تربیت میں غفلت اولاد کو مجرم بنانے کے مترادف ہے آپکی اولاد آپکا سب کچھ ہے اپنی اولاد کو اچھا شہری بنانے میں اپنے تمامتر وسائل بروئے کار لائیں کہ اولاد والدین کی تربیت کا اشتہار ہوتی ہے

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

:) :)) ;(( :-) =)) ;( ;-( :d :-d @-) :p :o :>) (o) [-( :-? (p) :-s (m) 8-) :-t :-b b-( :-# =p~ $-) (b) (f) x-) (k) (h) (c) cheer
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top