تحریر: ملک محمد معظم علوی
رات کے 3 بجے اچانک آنکھ کھل گئی۔ حمام سے فراغت کے بعد جیسے ہی میں اپنے کمرے میں واپس جانے لگا ساتھ والے کمرے میں نظر پڑی جہاں والدہ محترمہ زوق و شوق و عقیدت کے ساتھ قرآن مجید کا مطالعہ کر رہی تھیں۔ میں نے محبت بھری نگاہوں سے والدہ کو دیکھا اور واپس آرام کرنے اپنے بسترے میں چلا گیا۔ یکایک قرآن مجید کی ایک آیک میرے دماغ میں گردش کرنے لگی۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ٘۔
پھر نیند جیسے مجھ سے کوسوں دور تھی اور میرا دماغ بار بار اس آیت کی گردان کرنے لگا۔ ابھی یہ گردان جاری ہی تھی کہ مجھے ایک بزرگ کے ملفوظات شریف میں موجود ایک مسئلہ بھی یاد آ گیا جسے پڑھ کر مجھے بہت ہی عجیب و غریب محسوس ہوا۔ اس مسئلے کی بابت کچھ صاحب علم و عرفان سے ذکر تو کیا لیکن پھر بھی تشفی دل نہ ہوئی۔ کیا کتابوں میں لکھی ہوئی ہر بات ماننا ضروری ہوتی ہے۔ اور وہ بھی تب جب وہ کتاب کسی مستند ثقہ کی جانب سے لکھی گئی ہو۔ یا پھر وہ بات محض حوالہ کے طور پر لکھی گئی ہے۔ اگر حوالہ ہے تو پھر مصنف بھی اسی مسئلہ پر متفق ہے تبھی وہ بات کتاب میں درج ہے۔ میں حفظ ماتقدم کے تحت وہ مسئلہ یہاں بیان نہیں کروں گا۔
بہرکیف میں اس "احسن تقویم" کے متعلق دیر تک سوچتا رہا کہ احسن تقویم آخر ہے کیا؟ کیا ہماری ظاہری شکل و صورت احسن تقویم ہے؟ یا پھر ہمارے ہاتھ پاؤں مکمل ہیں سلامت ہیں یہ احسن تقویم ہے؟ ہمارے ظاہری چال ڈھال ٹھیک ہے یہ احسن تقویم ہے؟ ہم مکمل طور ظاہری حواس کے ساتھ زندہ ہیں یہ احسن تقویم ہے؟ ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت و استعداد رکھتے ہیں کیا یہ احسن تقویم ہے ؟
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ٘۔ قرآن مجید کی سورۃ التین کی آیت نمبر 4 ہے۔ سورۃ التین 30 پارے میں موجود قرآن مجید کی 95 سورۃ ہے۔ سورۃ التین 1 رکوع ، 8 آیات ، 34 الفاظ اور 156 حروف پر مشتمل ایک چھوٹی مگر جامع سورۃ ہے۔
قرآن مجید کی جہاں بہت سی خصوصیات ہیں وہاں یہ بھی اسی کتاب ہدایت کا امتیاز ہے کہ یہ مختصر الفاظ میں جامع ترین بات کر دیتا ہے۔ شائد اسی لئے ہمیں بھی قرآن مجید بار بار غور و فکر کی تلقین کرتا ہے۔ کہ دیکھو زمین و آسمان کو دن اور رات کو سورج اور چاند کو کیا ان میں ہماری نشانیاں نہیں ہیں؟
سورت التین کے بارے میں ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے دو قول منقول ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مکی ہے اور دوسرا یہ کہ مدنی ہے۔ لیکن جمہور علما اسے مکی ہی قرار دیتے ہیں اور اس کے مکی ہونے کی کھلی ہوئی علامت یہ ہے کہ اس میں شہر مکہ کے لیے ھٰذا البلد الامین (یہ پرامن شہر) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر اس کا نزول مدینہ میں ہوا ہوتا تو مکہ کے لیے یہ شہر کہنا صحیح نہیں ہو سکتا تھا۔ علاوہ بریں سورت کے مضمون پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے بھی ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، کیونکہ اس میں کوئی نشان اس امر کا نہیں پایا جاتا کہ اس کے نزول کے وقت کفر و اسلام کی کشمکش برپا ہو چکی تھی اور اس کے اندر مکی دور کی ابتدائی سورتوں کا وہی اندازِ بیان پایا جاتا ہے جس میں نہایت مختصر اور دل نشین طریقہ سے لوگوں کو سمجھایا گیا ہے کہ آخرت کی جزا و سزا ضروری اور سراسر معقول ہے۔
اس سورت کا موضوع جزا و سزا کا اثبات ہے۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے جلیل القدر انبیا کے مقامات ظہور کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔ اگرچہ اس حقیقت کو دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً کہیں فرمایا کہ انسان کو خدا نے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا اور فرشتوں کو اس کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ کہیں فرمایا کہ انسان اُس امانتِ الٰہی کا حامل ہوا ہے جسے اٹھانے کی طاقت زمین و آسمان اور پہاڑوں میں بھی نہ تھی ۔کہیں فرمایا کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ۔ لیکن یہاں خاص طور پر انبیا کے مقاماتِ ظہور کی قسم کھا کر یہ فرمانا کہ انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے، یہ معنی رکھتا ہے کہ نوع انسانی کو اِتنی بہتر ساخت عطا کی گئی کہ اس کے اندر نبوت جیسے بلند ترین منصب کے حامل لوگ پیدا ہوئے جس سے اونچا منصب خدا کی کسی دوسری مخلوق کو نصیب نہیں ہوا۔
اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ انسان میں دو قسمیں پائی جاتی ہیں، ایک وہ جو اس بہترین ساخت پر پیدا ہونے کے بعد برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اخلاقی پستی میں گرتے گرتے اُس انتہا کو پہنچ جاتے ہیں جہاں ان سے زیادہ نیچ کوئی دوسری مخلوق نہیں ہوتی، دوسرے وہ جو ایمان و عمل صالح کا راستہ اختیار کر کے اس گراوٹ سے بچ جاتے ہیں اور اُس مقامِ بلند پر قائم رہتے ہیں جو اُن کے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ نوع انسانی میں اِن دو قسموں کے لوگوں کا پایا جانا ایک ایسا امر واقعی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کا مشاہدہ انسانی معاشرے میں ہر جگہ ہر وقت ہو رہا ہے۔
آخر میں اس امر واقعی سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جب انسانوں میں یہ دو الگ الگ اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں تو پھر جزائے اعمال کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ اگر پستی میں گرنے والوں کو کوئی سزا اور بلندی پر چڑھنے والوں کو کوئی اجر نہ ملے اور انجامِ کار دونوں کا یکساں ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی خدائی میں کوئی انصاف نہیں ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت اور انسان کی عقلِ عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ جو شخص بھی حاکم ہو وہ انصاف کرے۔ پھر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ، جو سب حاکموں سے بڑا حاکم، ہے، وہ انصاف نہیں کرے گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع حدیث میں یہ گزر چکا ہے کہ جو شخص «وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ» پڑھے اور اس کے آخر کی آیت «أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ» پڑھے تو کہہ دے «بَلَى وَأَنَا عَلَى ذَلِكَ مِنْ الشَّاهِدِينَ» یعنی ہاں اور میں اس پر گواہ ہوں۔ [سنن ترمذي:3347،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
اس سورت کے چند مخصوص فوائد بھی ہیں اگر کوئی شخص چاہے کہ اس کے گھر میں خوبصورت لڑکا پیدا ہو
تو اس کو چاہیئے کہ حمل کی ابتداء سے نو ماہ تک سفید چینی کی طشتری پر سورۃ التین کو روزانہ باوضو لکھ کر نہار منہ عورت کو کھلا دے یا پلا دے انشاءاللہ تعالیٰ لڑکا خوبصورت پیدا ہو گا ۔
سورۃ التین سات مرتبہ با وضو پڑھے اول وآخر درود شریف گیارہ مرتبہ پڑھے انشاءاللہ تعالیٰ ہر پریشانی دور ہو گی اور اگر اہم مقصد ہے تو اس میں کامیابی ملے گی۔
باغ اور کھیتی کی حفاظت کے لیے یہ سورت عرق گلاب یا زعفران سے لکھ کر پانی میں گھول کر باغ یا کھیتی کے چاروں کناروں پر چھڑک دیں ۔چوہے اور ٹڈیوں سے محفوظ رہے گی۔
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.