تحریر: ملک محمد معظم علوی |
7 اپریل میرا جنم دن ہے میں سوچتا ہوں 7 ہی کیوں 5 یا پھر 9 کیوں نہیں۔ اگست یا پھر جنوری کیوں نہیں ۔ کیونکہ 7 اپریل میرا دن ہے یہ میری میراث ہے جسے مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ 7 روحانیت کا بھی عدد ہے۔ 7 عدد والے لوگ روحانی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک بھی ہوتے ہیں۔ 5 عدد متوسط جبکہ 9 عدد علمِ الاعداد کا سب سے بڑا عدد ہے 9 نمبر والے کو 9 نمبر والا ہی شکت دے سکتا ہے۔
چکوال شہر میں آوارگی کرتے ہوئے ایک سے دوسرے اور پھر تیسرے کونے میں آپ بیک وقت صوفی ، درویش اور قلندر سے مل سکتے ہیں صوفی صاحب بھون روڑ ، درویش مقبول چوک ، جبکہ قلندر ملت چوک کے ساتھ ہی خیمہ زن ہیں۔ صوفی اور درویش سے ملاقات اتفاقی جبکہ قلندر سے ملاقات ایک دوست حکیم قیصر شاہ اشرف شاہ کی وساطت سے ہوئی۔ جب ایک طرف صوفی ، دوسری طرف درویش اور تیسری طرف قلندر ہو تو مطلب آپکی روحانی کابینہ مکمل ہو جاتی ہے۔
7 اپریل 2018 دن کے وقت قمر اقبال صوفی کے گھر بیٹھے ہوئے گفت و شنید جاری تھی کہ آپ نے اپنی کتاب " روحانیت ، دانش اور حقیقتیں" بطور تبصرہ و مطالعہ دی۔ مجھے اکثر جنم دن پر بہت سے تحائف ملتے ہیں۔ لیکن غالباً کتاب سب سے بہترین تحفہ ہے۔ کیونکہ یہ ہمیشہ ساتھ رہنے والی چیز ہے۔ قمر اقبال صوفی " روحانیت، دانش اور حقیقتیں" کے علاؤہ درجن بھر کتابوں کے مصنف ہیں جن میں " روحانی قوت اور دانش انسانی ، "خود شناسی اور روحانی علوم" ، "اسرارِ روحانیت اور کامیاب زندگی" ، " دولت اور دانش انسانی" ، " روحانیت اور شعور زندگی" سر فہرست ہیں اور بلاشبہ اچھی کتب ہیں
آپ کے والد محمد اقبال فوج میں کرنل تھے سب سے بڑے بھائی ظفر اقبال بھی کرنل ریٹائرڈ ہیں اور پنڈی کینٹ میں رہتے ہیں ۔ چھوٹے بھائی خالد اقبال فوج سے کیپٹن ریٹائرڈ ہوئے ایک بہن بیگم عفت لیاقت ایم این اے اور ایم پی اے بھی رہیں۔ جن کے شوہر چوھدری لیاقت علی خان ن لیگ کے سدا بہار ایم بی اے تھے مشکل ترین وقتوں میں بھی ن لیگ کے ساتھ رہے۔ چوھدری لیاقت علی خان اپنی وفات تک ایم پی اے رہے اس کے بعد ان کے بیٹے چوھدری سلطان حیدر علی خان ن لیگ کے ٹکٹ پر ضمنی الیکشن لڑے اور ایم پی اے منتخب ہوئے۔
لفظ ’’تصوف ‘‘اور’’ صوفی‘‘ کی لغوی بحث میپں ماہرین لسانیات و محققین کا ہر دور میں اختلاف رہا ہے چونکہ قرآن و صحاح ستہ میں یہ لفظ موجود نہیں اور عربی زبان کی قدیم لغات میں اس لفظ کا وجود نہیں اس لیے ہر دور کے علما اور محققین اس بارے میں مختلف آراء اور خیالات ظاہر کرتے رہے۔
صوفہ ‘‘ قوم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ خانہ کعبہ کے مجاور تھے اور حاجیوں کے آرام وآسائش کے لیے انتظامات کیا کرتے تھے اس قوم کا پہلا شخص ’’ غوث بن مُر ‘‘ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ غوث کی ماں کی کوئی اولاد نہ تھی اور اس نے منت مانی تھی کہ اگر اس کے لڑکا تولد ہوا تو وہ اسے خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے وقف کرے گی چنانچہ لڑکا تولد ہوا تو اس کا نام ’’ غوث‘‘ رکھا گیا جو بعد میں ’’ صوفہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا اور اس کی اولاد بھی صوفہ کہلائی۔ صوفہ کو’’آل صوفان ‘‘ اور ’’ آل صفوان ‘‘کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ایک طبقہ کی رائے ہے کہ صوفی ’’صفا‘‘ سے مشتق ہے اور صوفیہ کی ایک بڑی جماعت اس رائے کی قائل ہے چنانچہ شیخ بشر بن الحارث الحافی [150۔227ھ/767۔841ئ[L:4 R:219] کا قول ہے کہ:
’الصوفی من صفا قلبہ للّٰہ‘
’’ صوفی وہ ہے جس نے اللہ کے لیے اپنے دل کو صاف کیا‘‘
حضرت سیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش، شیخ زکریا انصاری(823۔926ھ / 1420۔1520ئ) ، غوث الاعظم سیدنا شیخ سیدناعبدالقادرجیلانی(471۔561ھ/1078۔1166ئ) اور بہت سے دوسرے اکابر صوفیا اسی نظریہ سے متفق ہیں۔
غوث الاعظم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی کا قول ہے:
’’ صوفی ’’فوعل‘‘ کے وزن پر ہے اور یہ مصافاۃ سے ماخوذ ہے یعنی وہ بندہ جسے حق تعالٰیٰ عزو جل نے صاف کیا‘‘
حضرت سیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش کشف المحجوب میں فرماتے ہیں:
ہر ایک کے نزدیک تصوف کے معانی کی تحقیق میں بہت سے لطائف ہیں مگر لغت کے اعتبار سے اس لفظ تصوف کے مفہوم سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ پس ان سب میں سے صفا قابل تعریف ہے اور اس کی ضد کدورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’دنیا کی صفائی جاتی رہی اور اس کی کدورت باقی رہ گئی‘‘
کسی چیز کی لطافت، خوبی اور پاکیزگی کا نام صفائی اور کسی چیز کی کثافت اور میلا پن اس کا تکد رہے پس جب اس قصہ والوں یعنی اہل تصوف نے اپنے تمام اخلاق و معاملات کو مہذب کر لیا اور اپنی طبیعت کو آفات و رزائل بشری سے بچا لیا اس لیے انہیں صوفی کہا جاتا ہے۔
حضرت داتا گنج بخش نے کشف المحجوب میں کسی شاعر کا یہ شعر نقل کیا ہے جس سے اس رائے کی تائید ہوتی ہے:
ان الصفا صفۃ الصدیق
ان اردت صوفیا علی التحقیق
’’ اگر تم حقیقتاً صوفی بننا چاہتے ہوتو تمہیں صدیق اکبر کی پیروی کرنا ہوگی کیونکہ صفائے باطن ان کی صفت ہے‘‘۔
بعض مورخین صوفی کو یونانی لفظ ’’سوف‘‘ سے ماخوذ بتاتے ہیں جس کے معنی حکمت و دانائی کے ہیں۔ یورپ کے کچھ مستشرقین کا خیال بھی یہی ہے۔ علامہ ابو ریحان البیرونی (363۔440ھ/973۔1048ئ) کتاب الہند میں لکھتے ہیں:
’ھذا رای السوفیہ و ہم الحکماء فان سوف بالیونانیۃ الحکمۃ وبھا یسمی الفیلسوف فیلاسوفا ای محب الحکمۃ ولما ذھب فی الاسلام قوم الی قریب من رایھمسموا باسمھم ولم یعرف اللقب‘
’’ یہ صوفیہ کی رائے ہے جو حکماء ہیں کیونکہ سوف یونانی زبان میں حکمت کو کہتے ہیں اسی لیے فلسفی کو فلاسفر کہا گیا کیونکہ وہ حکمت سے محبت رکھتا ہے۔ اور مسلمانوں میں ایک طبقہ ان کی رائے کے قریب ہو گیا تو وہ بھی انہی کے نام سے موسوم ہوا‘‘
قمر اقبال صوفی کی اولاد نرینہ تو نہیں لیکن ہم جب بھی ملاقات کے لیے گئے ہمیں اپنی اولاد کی طرح ہی ٹریٹ کیا۔ ہمیشہ اپنے ہاتھوں سے کھانا ، چائے وغیرہ ٹیبل پر پیش کرتے ہیں۔ روحانیت کی طرف کب راغب ہوئے صحیح سے معلوم نہیں۔ شائد ہالینڈ کی گلیوں میں گھومتے گھومتے کسی گوری کے عشق میں مبتلا ہو جانے کے بعد عشق حقیقی کی بھول بھلیوں میں داخل ہو گئے۔
صوفی آپ کو "بور" نہیں ہونے دیتا. مختلف موضوعات پر لامحدود گفتگو جاری رکھ سکتے ہیں۔ وقت کی قید سے آزاد ایک آزاد منش انسان اپنی سی مستی میں گلے میں شیر دانت کبھی لاہور ، کبھی راولپنڈی ، کبھی انگلینڈ ، کبھی ہالینڈ کی گلیوں کوچوں میں کسی ادبی محفل میں جا بجا نمودار ہوتا اور اپنی ایک الگ سی خوشبو بکھیرتا نظر آتا ہے۔ اور پھر اپنے مسکن چکوال کی جانب واپس آتا ہے۔
قمر اقبال صوفی " روحانی" ہونے کے ساتھ ساتھ " پامسٹ" بھی ہیں۔ پامسٹری گو کہ ایک مشکل مضمون ہے لیکن وہاں بھی آپ کافی ماہر ہیں۔ پامسٹری پر کتاب بنام " اسرار پامسٹری" آپ کی ایک اچھی کتاب ہے۔ اس موضوع پر آپکی کتاب کافی سیر حاصل و مدلل ہے۔
میں جب بھی کوئی کتاب پڑھتا ہوں اس کا مکمل آپریشن کرتا ہوں۔ صوفی کی کتاب کا بھی آپریشن کیا لیکن وہ آپریشن کیا ہے نہ صوفی کو بتایا نہ یہاں بتاؤ گا ہاں البتہ یہ بات یقینی ہے کہ اگر آپ نے " روحانیت ، دانش اور حقیقتیں" پڑھ لی تو آپ پر نیا جہاں وا ہو گا۔
گزشتہ دنوں سید عاطف کاظمی کے ہمراہ قمر اقبال صوفی کے پرانے گھر سرپاک پر ملاقات ہوئی جہاں پر پہلے سے روحانیت پر گفتگو جاری تھی۔ محفل کے اختتام پر سرپاک کے دو سو سال پرانے تالاب جہاں ایک کونے پر کسی زمانے میں ہندو "اشنان" اور دوسرے کونے سے مسلمان پانی بھر کر گھر لے جاتے تھے ، اب ہندو تو نہیں رہے لیکن اردگرد کی فضا آج بھی وہی پرانی ہے، کے سامنے دونوں مصنفین سید عاطف کاظمی اور قمر اقبال صوفی نے اپنی کتب کا تبادلہ کیا اور یوں لکھاریوں کی رسم نکاح مکمل ہوئی جس کا گواہ راقم ہے۔
ہالینڈ میں رہنے والا یہ صوفی بتاتا ہے کہ نوری جسم کے جاگنے کے بعد انسان کی زندگی بڑی آسان ہو جاتی ہے وہ خوشیاں سکون‘ مالی کامیابیاں‘ ذہانت اور قابل رشک صحت حاصل کر سکتا ہے۔ اپنے خالق پر اور پختہ یقین ہو تو ایسی چیزیں بھی ہونے لگتی ہیں جن کے دنیاوی طور پر اسباب موجود نہ ہوں۔ خالق پر یقین ہو تو دنیا کی جمع تفریق کے برعکس بھی کام ہونے لگتے ہیں۔
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.