تحریر : ملک محمد معظم علوی
maliksubhan61@gmail.com
03495642786
میرے سامنے ذونیرا بخاری کی نئی کتابیں اور ان میں موجود سنہری تحریریں آنکھوں کے دوش پر سوار ہو کر دل ودماغ تک رسائی حاصل کررہی ہیں۔ ان کتابوں کے نام ہی ان کے اندر موجود تحریروں کا ترجمان اور عکاس ہے۔ ذونیرا بخاری کا تعلق بہاولپور سے ہے. وہ بہاولپور جو مختلف نوابوں اور حکمرانوں کا آبائی شہر اور مرکز رہا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں ، بہاولپور کو راجپوتانا ریاست کہا جاتا تھا جو اب ہندوستان میں راجستان ہے۔
یہ شہر اپنے بہت سے مشہور محلات کے لئے مشہور ہے جس میں نور محل ، دربار محل صادق گھر محل جیسے نیز صحرائے چولستان اور بارڈرنگ ہندوستان میں واقع دراور کا کچھ اور قدیم قلعہ شامل ہیں۔ علاقائی مقام کی خود تاریخی اہمیت ہے کیوں کہ یہ اچچ کے تاریخی اور قدیم شہر نیز ہڑپہ کے قریب واقع ہے ، یہ دونوں بالترتیب دہلی سلطنت اور دریائے سندھ کی تہذیب کا مضبوط گڑھ ہوتے تھے۔
بہاولپور شہر ، لال سوہانرا نیشنل پارک ، پاکستان میں موجود بہت ہی کم قدرتی سفاری پارکوں میں سے ایک پر فخر کرتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ہی ذکر ہو چکا ہے ، بہاولپور میں بیشتر بادشاہوں اور نوابوں کا گھر رہا ہے لہذا سیاحوں ، تاریخ دانوں اور آثار قدیمہ کے ماہرین کے لئے یہ ایک اہم توجہ ہے۔ ان بادشاہوں نے اپنے لئے محل تعمیر کیے جو سیاحوں کی توجہ کا ایک بڑا سبب ہیں۔
ذونیرا بخاری کو لکھنا پڑھنا بہت پسند ہے. انہوں نے انگریزی ادب میں فارمن کرسچن کالج یونیورسٹی سے ایم فل کیا ہوا ہے اور انگریزی کی لیکچرار ہیں، لیکن اردو زبان سے بہت وابستگی ہے. اب تک انکی چار کتب شائع ہوچکی ہیں. جو کہ بالترتیب یہ ہیں۔
چندراوتی (افسانوں کا مجموعہ) 2018
مائیگرین اور محبت (افسانوں کا مجموعہ) 2019
تارم (ناول) 2020
The Sick Rose (poems) 2021
فیس بک کی دنیا بھی عجیب ہے آپ کو ایسے ایسے بندوں سے متعارف کرا دیتی ہے جن سے ظاہری دنیا میں ملنا بظاہر ناممکن ہوتا ہے۔گزشتہ دنوں ذونیرا بخاری کی پوسٹ ایک فیس بک گروپ میں دیکھی جہاں انکے ناول اور افسانوں کے اقتباسات پڑھے۔ مجھے وہ ناول اور افسانے پڑھنے کی شدید خواہش جاگی پہلے ہچکچاہٹ محسوس کی پھر چارو ناچار رابطہ کر ہی لیا اور عید والے دن عید مبارک کے بعد اپنے لئے کتابوں کی درخواست کر دی جو کہ قبول ہوئی اور 10 مئی کو 3 عدد کتب بمعہ مصنفہ کے دستخط کے موصول ہوئیں۔
کسی فلسفی کا کہنا ہے کہ ”اگر انسان اپنی نسیان کی طاقت سے کام نہ لے تو ماضی کے محرکات اس کی زندگی پر محیط ہوجائیں اور پھر وہ تا عمر مایوسی، اضطراب اور تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔“
یا اضطراب اگر کسی اور طرح اثر انداز ہو تو اندر موجود بے چینی کسی پل بھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ اسی اضطراب کو اگر ایک توانائی سمجھ لیں تو ایک صورت جنون بھی بن سکتی ہے۔ اسی جنوں کو کسی تحریک کا باعث بنا دیا جائے تو تاریخ معرکوں سے پر نظر آنے لگتی ہے۔
ذونیرا بخاری افسانہ نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ناول نگار بھی ہیں ان کا پہلا اور دوسرا افسانوی مجموعہ " چندراوتی " اور "مائیگرین اور محبت" میں لکھے ہوئے افسانے سرسری پڑھنے والی نہیں ہیں بلکہ ان میں جہانِ دیگر کی کار فرمائی ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ انہیں پڑھ کر مجھے اپنے آنسووں کو پینا پڑے گا۔ تاکہ ان کی بے حرمتی نہ ہو۔ یہ افسانے اشاروں کنایوں میں بہت کچھ کہتے ہیں چشم بینا، اور ذہن و دل کی کھڑکیاں کھلی ہوں تو بہت کچھ دکھاتی بھی ہیں۔
بیشتر افسانوں میں وہ اپنی اندرونی بےچینیوں بلکہ وحشتوں کو فنی لطافتوں کا لبادہ اوڑھ کر انھیں جمالیاتی دھڑکن عطا کر رہی ہیں۔ ان افسانوں میں نفسیات کی عکاسی بہت فطری انداز میں کی گئی ہے۔ کسی بھی فن پارے کی گہرائی میں جانا اور جوہر تلاش کرنا صبر آزما ہے جس کے لیے وقت اور ہمت دونوں درکار ہیں۔ اور ذونیرا بخاری اس کام سے بخوبی واقف ہیں۔ ان افسانوں میں ، دکھ بھی ہے ،درد بھی ہے ، رومانیت بھی ہے ، روحانیت بھی ہے اور نفسیات بھی ہے۔ یہ تحریریں ذونیرا بخاری کے اندر چھپے ہوئی اس انسان کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو کہ ہر چیز کو باریک بینی سے دیکھتا ہے ، انہیں محسوس کرتا ہے ، ان کے دکھ ، درد کو سمجھتا ہے اور پھر ان تمام چیزوں کا سمجھ کر انہیں کاغذ پر لکھ پر اس کو زبان دیتا ہے۔
ذونیرا بخاری کی توانا آواز ناصرف سماج کے صنفی امتیاز کے خلاف بغاوت ہے بلکہ عورت کو پہچان کے بحران سے نکالنے کا وسیلہ بھی ہے۔ ایک عورت کے محسوسات اور حساس لکھاری کے جذبات سے گندھا ہوا اُردو افسانوں کا مجموعہ" چندراوتی " اور " مائیگرین اور محبت " معاشرے کے ُمنہ پر ایک زوردار تمانچہ بھی ہے اور دَم توڑتی انسانیت کا نوحہ بھی ہے۔
ذونیرا بخاری کا ناول " تارم " بھی آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے شروع سے لے کر آخر تک آپ اس کے سحر سے نہیں نکل پاتے۔ ایک اور قابلِ ذکر بات خوبصورت زبان کا استعمال ہے جو ان کی تحریر کی ایک بڑی خوبی ہے جو مکالموں و حرکات و سکنات سے کردار میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ "تارم" ایک عورت کی دوسری عورت کے ساتھ جنگ کی کہانی ہے۔ یہ حسد ، جلن اور کھلی دشمنی کی جنگ ہے۔ ذونیرا بخاری اسے women harassment کا نام دیتی ہے اسے اس بات کا بھی خوف ہے کہ " یہ بات عورتوں کے گروہ کا سامنے کر دوں تو وہ مجھ پر چڑھ دوڑیں گی کہ میں عورت کے خلاف بول رہی ہوں۔" تارم معصوم ہے ، حسین ہے ، سادہ ہے ، اس میں احساس اور سلیقہ ہے ، وہ شوخ اور چنچل بھی ہے۔ اور محبت کی حریص بھی۔ اس کے اخلاق ، مورال اور عزائم بہت بلند ہیں۔
"تارم" میں ذونیرا ایک جگہ لکھتی ہیں ، " خیر الورٰی! محبت صلی نہیں مانگتی۔ مجھے بس اس سے ایک کی شکوہ ہے کہ اگر وہ جانا چاہتی تھی تھی تو بتا کر چلی جاتی۔ میں اس سے زبردستی تو نہ کرتا۔ لیکن ایک دورائے پر بنا بتائے چھوڑ کر چکے جانا کہاں کا انصاف ہے؟ وہ جو ساحر لدھیانوی نے کہا تھا کہ
وہ افسانہ جسے انجام تک پہنچانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوب صورت موڈ دے کر چھوڑنا اچھا
خیرالوریٰ کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔
سعادت حسن منٹو نے محبت کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے کہ " عشق ایک مرض ہے اور جب تک طول نہ پکڑے، مرض نہیں ہوتا ، محض ایک مذاق ہوتا ہے".
"تارم" کے آخر میں اس پر ظلم کرنے والی اس کو ہراساں کرنے والی اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا واقعی مکافات عمل ہے۔
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.