" میرے پاس بچپن سے روایتی کینوس ہے نہ برش اور نہ ہی رنگ لیکن بہت چھوٹی عمر میں ہی مجهے احساس ہو گیا تھا کہ میں مختلف چیزوں کی ہو بہو نقل اتار سکتا ہوں. میرا بچپن بہت سارے کاغذ ردی کرتے اور عام کپڑے کے کٹ پیس خرید کر ان پر مختلف اشکال بناتے گزرا.مجهے دیواروں اور چهتوں کے وسیع کینوس بہت بعد میں آ کر ملے".
 |
چکوال کا 37 سالہ وال آرٹسٹ علی مختار |
یہ چکوال کے 37 سالہ وال آرٹسٹ علی مختار ہیں جو اپنے خاندان کی کفالت کا بوجھ سنبھالے چکوال شہر کے محلہ بهٹیاں کے ایک چھوٹے سے گهر میں رہتے ہیں. بیوی بچے تو نہیں مگر والدین اور بہن بھائیوں کی ذمہ داری موجود ہے. قدرت نے انہیں ایسی صلاحیت ودیعیت کی ہے کہ وہ ایسے رنگ جن میں لتهڑا برش چلانا بهی آسان نہیں سے نازک و نفیس گل بوٹے اور تصاویر دیوار پر ابهار لیتے ہیں. علی مختار کا اصل نام تو امیر مختار ہے مگر وہ علی مختار کے نام سے کام کرتے ہیں اور قریبی حلقے انہیں شیرو بلاتے ہیں.
علی مختار کے خاندان میں بہت سے افراد رنگسازی کے پیشہ سے وابستہ ہیں. ان کے والد جو اب ضعیف ہیں بهی مدتوں یہی کام کرتے رہے ہیں. 1997-98ء میں ہائ سکول چھوڑنے کے فوراً بعد علی مختار بهی اس کام سے وابستہ ہو گیا اور کبهی کبهار یہ کام کرنے لگا تاہم مستقل طور پر نہ کیا. قریب دو سال پہلے وہ رنگسازی سے مستقل وابستہ ہو گیا اور بچپن میں کاغذ پر کھینچی گئی لکیروں کو ایک نئے انداز سے دیواروں پر بنانے کا فیصلہ کر لیا. چکوال میں اس سے پہلے" وال آرٹ" کا وجود معدوم ہو چکا تها.
"میں کوئی مصور نہیں بلکہ فن کے سمندر کنارے کهڑا طفل مکتب ہوں. نئے خیالات ہردم اترتے ہی رہتے مگر ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وقت نہیں ملتا.مجهے اپنے خاندان کی کفالت بهی کرنا ہوتی اور پیشہ ورانہ صلاحیت حاصل کرنے کے لیے تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو میرے لئے ممکن نہیں ہے. کینوس، برش اور رنگ خریدنا بهی آسان نہیں ہوگا اس لئے میں نے رنگسازی کے فن میں جدت لانے کی کوشش شروع کردی ہے. چکوال میں اس فن کے لانے والے اولین افراد میں سے ایک میں بھی ہوں. علی مختار نے دهیمے اور جهجهکتے لہجے میں بات چیت شروع کی.۔

"چکوال میں دیواروں پر نقش و نگار بنوانے والے بہت کم ہیں. لوگ ماسوائے چند ایک کے اس کا الگ سے معاوضہ بهی نہیں دینا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معمول کی دیہاڑی میں ہی یہ کام کر دیا جائے. فن کے کچھ قدردان دوستوں نے اس سلسلے کو بڑهانے کے لیے مدد بهی کی ہے .انہوں نے نہ صرف معاوضہ الگ سے دیا بلکہ ضروری اشیاء خرید کر بهی دیں. میرے پاس در و دیوار کی سجاوٹ کے لئے نئے آئیڈیاز کا فقدان فی الحال تو نہیں حتیٰ کہ اگر میں چکوال شہر کے تمام گھروں میں یہ کام کروں تو ہر بار مختلف ہو سکتا ہے.میں کام چکوال میں ہی کرنا چاہتا ہوں. بہت جلد میں چکوال کو کینوس پر لانے کا سلسلہ شروع کروں گا اور مستقبل میں اپنے اس کام کو سب کے سامنے پیش کروں گا. علی مختار نے بات جاری رکھی.
" میں نے بچپن سے اب تک ہرقسم کے رنگ استعمال کیے ہیں اور مجهے رنگوں کے استعمال کی بنیادی باتوں کا بهی علم ہے مگر مجهے موقعہ ملے تو اس فن کی کسی اچهی اکیڈیمی سے باقاعدہ تربیت حاصل کروں. استاد کے بغیر سیکهنا آسان نہیں ہوتا. استاد ایسے بنیادی نکتے سے روشناس کراتے ہیں جو عمر بهر ساتھ رہتے ہیں گو قدرتی صلاحیت ہونا بهی نہایت ضروری ہے. بنیادی باتیں اگر چهوٹی عمر میں ہی باقاعدہ سیکهی جائیں تو فن کو پختہ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ، مگر میں یہ باقاعدہ تربیت حاصل نہ کر سکا جس کا مجهے اب بهی افسوس ہے.علی مختار نے تاسف بهرے لہجے میں کہا.
" میں قومی یا بین الاقوامی سطح پر کسی مصور کا نام نہیں جانتا. چکوال کے آرٹسٹ امجد حسین میرے پسندیدہ مصور ہیں. میں ان کا بہت بڑا مداح ہوں. میں نے ان سے تب پہلی ملاقات کی تهی جب میں چهٹی جماعت میں تھا. انهوں نے کاغذ پر میرا کام دیکھ کر حوصلہ افزائی کی تهی.ان کے پاس وقت کی کمی کے باعث میں نے آصف صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے ہی راہنمائی اور اصلاح لی. میری اب بهی سب سے بڑی خواہش ہے کہ کسی بڑی اکیڈمی میں جا کر سیکهوں کہ سیکهنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی. علی مختار نے بات ختم کرتے ہوئے کہا .۔ علی خان
تصاویر بشکریہ. ...ارشد میر خان میرج ہال چکوال
|
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.