![]()
"پڑھیے چکوال کے سب سے بڑے نیزا باز کلب کے بارے جس نے بہت کم وقت میں نیزا بازی کی تاریخ میں اپنا مقام پیدا کیا"۔
تحریر: علی خان
چکوال کے تاریخی قصبہ بھون کے مشرق میں سرسبز کھیتوں کے درمیان چکوال کی نیزابازی کا مرکز و محور واقع ہے ۔بھون کے مرکزی بازار سے ایک سڑک سیدھی بھون بائی پاس تک جاتی ہے۔چورستہ پر پہنچیں تو مشرق کی جانب چھوٹی سی سڑک راجہ ظہور حسین کے ملکیتی اصطبل پر پہنچ جاتی ہے۔
اس اصطبل میں گھوڑوں کا ایک جہان آبادہے ۔زندہ دل راجہ ظہور حسین کے تین بیٹے راجہ عاطف ظہور ، راجہ عاکف ظہور اور ڈاکٹر راجہ عاصم ظہور بھی نیزا بازی کی اس کھیل میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ راجہ عاکف ظہور اور راجہ عاطف ظہور گو بیرون ملک ہوتے ہیں مگر ان کا دل یہاں دھڑکتا ہے ۔بیرون ملک سے ان کی آمد کا انحصار چھٹی ملنے پر نہیں بلکہ نیزابازی کے کسی بھی ایونٹ کے انعقاد کی تاریخ پر منحصر ہے ۔وہ جہاں بھی ہوں نیزابازی کے مقابلے کا اعلان ہوتے ہی مقررہ وقت پر میدان میں موجود ہوتے ہیں ۔یہ ان کی اس کھیل سے گہری وابستگی اور محبت کا عکاس ہے ۔
29 سالہ ڈاکٹر راجہ عاصم ظہور ٹی ایچ کیو ہسپتال کلر کہار میں تعینات ہیں۔ان کی زندگی تین چیزوں کے گرد گھومتی ہے ۔ہسپتال ،گھر اور اصطبل۔ ڈیوٹی اوقات سے فراغت کے بعد وہ کچھ وقت سونے اور اور باقی وقت اپنے گھوڑوں کی نگہداشت میں گزارتے ہیں ۔خوشحال مگر سادہ مزاج تینوں باپ بیٹوں کی زندگی کا محور و مرکز گھڑ سواری اور نیزہ بازی کا شوق ہے ۔ان کے اس شوق کے سبب ضلع چکوال میں اس کھیل کو بے حد فروغ حاصل ہوا ہے ۔ان کے پاس اس وقت ضلع چکوال بلکہ راولپنڈی ڈویژن کا سب سے بڑا اصطبل موجود ہے ۔
تحصیل کلرکہار میں واقع قصبہ بھون گو تاریخی،سماجی، علمی اور سیاسی حوالوں سے بھی معروف ہے مگر یہاں 2004ءمیں" پیر عالم شاہ گیلانی نیزا باز کلب" کی بنیاد رکھی گئی تو نہ صرف اس قصبہ بلکہ ضلع چکوال کا نام بھی نیزابازی کے میدانوں میں گونجنے لگا ہے۔ پندرہ سال کے مختصر عرصے میں اس کلب کے حاصل کیے گئےاعزازت سے ایک کمرہ بھرا پڑا ہے ۔مختلف ایونٹس میں 125 سے زائد ٹرافیاں شیلڈز حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کلب نے تین موٹر سائیکل چار مرتبہ عمرہ کے ٹکٹ اور نقد انعامات بھی حاصل کر رکھے ہیں ۔اس کلب کے گھوڑے "درشن" نے اپنے حسن کی بنیاد پر 50ہزار روپے کا انعام بھی حاصل کیا ہے ۔
پیر عالم شاہ گیلانی نیزابازی کلب بھون کے بانی راجہ ظہور حسین جبکہ سرپرست اعلیٰ راجہ عاطف ظہور ہیں ۔کلب کے پریزیڈنٹ ڈاکٹر راجہ عاصم ظہور ہیں۔اس فیملی کے آباواجداد نے بھی ماضی کے زمیندار گھرانوں کی طرح سواری کے لئے گھوڑیاں رکھی تھیں مگر نیزا بازی کا شوق 2000ء میں شروع ہوا ۔ان کا کلب چکوال کا واحد کلب ہے جو11 ۔2010ء سے PFD سے رجسٹرڈ ہے ۔ان کے اصطبل میں اس وقت کل 30 گھوڑے موجود رہتے ہیں ۔دو سیکشن گھوڑے یعنی کل آٹھ گھوڑے نیزا بازی کے میدان میں اترنے کے لئے ہمہ وقت تیار ملتے ہیں جبکہ چار زیرتربیت ہوتے ہیں ۔ان کے ساتھ ساتھ اعلیٰ نسل چودہ گھوڑیاں اور بچھیرے بچھیریاں بھی نسل کشی کے لیے موجود ہیں۔
پیر شاہ عالم گیلانی نیزابازی کلب کے پاس اس وقت سب سے بہترین گھوڑا "کمانڈر "موجود ہے ۔برال بلڈ لائن کا یہ گھوڑا اپنی خوبصورتی، چال ڈھال، رفتار اور سٹیمنا کے باعث نہ صرف چکوال کا معروف ترین گھوڑا ہے بلکہ پنجاب کے تمام نیزابازی کے میدانوں کا جانا پہچانا نام ہے ۔"کمانڈر" متعدد معرکے سر چکا ہے ۔
برال بلڈ لائن کا "رومیو" بھی نامور گھوڑا ہے . یہ پاکستان کے نامی گرامی گھوڑے "ایف16 "سے ہے جو خود "ساوا مور" ضلع راولپنڈی کی نسل سے تھا ۔"مقبول بروانہ" اور "وارث بروانہ" بلڈ لائن کا" سمراٹ "بھی لاجواب گھوڑا ہے ۔برال بلڈ لائن کے ہی مشہور گھوڑے" حاکم" کا پوتا "سمگلر "بھی اسی اصطبل کی زینت ہے۔ " مستانہ" "ٹائیگر" اور "برسات" بھی برال بلڈ لائن سے تعلق رکھتے ہیں۔اس اصطبل کا "شہزادہ" ایک رقاص گھوڑا ہے جو معروف ڈانسر گھوڑے "قوس وقزح "کے خاندان سے ہے ."لاڈلا" "دیوانہ" "مجنوں "اور "جانی راجیاں دا" ظلی سیال نسل کے خوبصورت اور بجلی بھرے گھوڑے بھی یہاں موجود ہیں۔
"کیپری" راوی فیصل آباد کی معروف بلڈ لائن "وٹوآں آلا" سے ہے مگر کیپری میں بہت سی خصوصیات ہیں جس کی وجہ سےاس اصطبل میں اسے نسل کشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔"کیپری" کی عمر اس وقت 25سے 30 سال کے درمیان ہے. یہ اپنے وقت کا بادشاہ گھوڑا تھا جس کی پوٹھوہار ریجن پر حکمرانی تھی ۔
"کمانڈر " دس سال سے میدان میں ہے اور اس کا کیریئر بہت شاندارہے ۔ "کمانڈر "نے گو بہت سے اعزازات حاصل کر رکھے ہیں مگر خود کمانڈر کے لیے اعزاز کی بات یہ ہے کہ پنڈی گھیب ہیں مقابلہ جیتنے پر نیزابازی کے لیجنڈ ملک عطا نے خود اس کی تعریف کی اور پیار کیا ۔یہ شائقینِ نیزابازی کا پسندیدہ گھوڑا ہے اور ملک بھر میں مشہور ہے۔ اس کی وجہ کمانڈر کی ہمیشہ بے مثال پرفارمنس ہے۔ آخری مرتبہ ہونے والے" جشنِ چکوال "میں کمانڈر نے آٹھ سو سے بھی زائد گھوڑوں میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔
"رومیو" بھی چار سال سے یہاں ہے اور بے مثال گھوڑا ہے اس کے ساتھ "سمراٹ" سفید رنگ کا خوبصورت گھوڑا بھی ۔یہ تینوں اصطبل کے مہنگے ترین گھوڑے بھی ہیں جن کی قیمتیں کئ کئی لاکھ روپے تک ہیں۔"رومیو" نیزا بازی کے ہر میدان پر اپنی صلاحیت کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔
"رومیو" اس اصطبل میں تب آیا جب یہ بچہ تھا ۔اس کی تربیت یا ہوئی ۔رومیو نے پہلی بار اپنے جوہر اٹک میں بابا کلو دربار پر نیزابازی میں دکھائےجہاں یہ اول آیا اور چار عمرے کے ٹکٹ جیتے ۔اس جیت سے اس سیکشن کے سواروں کو بھی عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔رومیو نے پھر اٹک اسٹیڈیم میں ہونے والے نیزابازی مقابلے میں پہلی پوزیشن کا انعام حاصل کیا ۔سرگودھا میں" مٹھا لک "کے مقام پر رومیو نے کھل کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور وہاں سے یہ شائقین نیزابازی کو بھا گیا۔ملک کے جانے مانے اناؤنسر حیدری نے اس موقع پر اس کی کھل کی جس سے یہ توجہ کا مرکز بن گیا۔ یہ عصر حاضر کے بہترین گھوڑوں میں سے ایک ہے اور شائقینِ نیزا بازی کا ہارٹ فیورٹ بن چکا ہے۔ رومیو بہت پر اعتماد گھوڑا ہے اور نیزابازی کے لیے درکار تمام خوبیوں سے مزین ہے۔ یہ اپنی ذمہ داری کو پورے اطمینان سے بخوبی سرانجام دیتا ہے۔
"ہم اپنے کلب کے ساتھ ایک سال کے دوران قریب 20 سے 25 مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں ۔یہ مقابلے پاکستان کے مختلف حصوں میں ہوتے ہیں ۔ہر کلب کی طرح ہمارے کلب کے گھڑسواروں کے لباس اور گھوڑوں کے سازو سامان کا مخصوص رنگ ہے جو "پیرٹ گرین" ہے ۔ اپنے فل سیکشن کے ساتھ ہم پہلی مرتبہ" جنگاہ" کے میدان میں اترے تھے اور اللہ تعالیٰ کے کرم سے کامیاب ہوئے تھے"۔ ڈاکٹر راجا عاصم ظہور میں گفتگو کا آغاز کیا ۔
"2004ء میں پہلی بار میرے بڑے بھائی راجہ عاطف ظہور گھوڑا تلاش کرنے جھنگ گئے تو ان کے ساتھ کچھ سینئر گھوڑسوار بھی تھے ۔ہم نے پہلا گھوڑا ساوا اڑھائی لاکھ روپے میں خریدا تھا جس کا نام "سلطان" تھا اور یہ ہمارے پاس تقریبا دو سال رہا ۔غالبا 2006ء میں" جشنِ نور مرید" پر ہم نے حصہ لیا تھا ۔ہمارے گھڑسوار استاد جہانگیر اعوان آف کھائ تھے ۔یہ پہلے فیز سے نکل گیا تھا ۔ پھر یہ سلسلہ چل پڑا راولپنڈی سے "زیور" اور پھر ایک کلاہ گھوڑا "فجر" لائے ۔ہمارے ساتھ چوتھا گھوڑا چوہدری تنویر آف بھون کا ایک مشکا گھوڑا بھی شامل ہو گیا ۔چودھری تنویر ہمارے قریبی عزیز ہیں ۔
"گھوڑوں کو اپنے سیکشن میں شامل کرنے کے دوران مشکل پیش آئی تو ہم نے۔11 2010 ء گیارہ میں اپنا کلب بنالیا اور تین چار سال بعد رجسٹرڈ بھی کرالیا ۔"زیور" اور مشکا ہم نے پہلے پہل پنڈی گھیب کے ایک دوست کے کلب میں دوڑائے تھے اور تیسری پوزیشن لے سکے ۔ اس موقع پر ہم نے سوچا کہ ہم دوسرے اضلاع کے کلب میں گھوڑے دوڑاتے رہیں گے تو ان اضلاع کا نام آئے گا چنانچہ ہم اپنے چکوال کے کلب بنائیں گے اور یہ خواب پورا ہوگیا ۔پہلی بار ہم اپنے فل سیکشن کے ساتھ قصبہ جنگاہ میں اترے تو پہلی ہی بار ہمارے پورے سیکشن نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس مقابلے پر ہم نے چار ایل سی ڈی ٹی وی اور نقد انعام حاصل کیا"۔ ڈاکٹر عاصم نے بات جاری رکھی۔
"شوق کے بغیر گھوڑوں کی نگہداشت آسان عمل نہیں ۔گھوڑوں کی دیکھ بھال اور خوراک پر بہت زیادہ توجہ دینی پڑتی ہے ۔ان کی خوراک چنے، جو اور جاؤندری ہے۔ سردیوں میں تارا میرا، سرسوں کے تیل کے ساتھ ساتھ دیسی گھی بھی خوراک کا حصہ ہوتا ہے ۔کیلشیم اور دیگر ادویات بھی استعمال کی جاتی ہے ۔سبز چارا اور بھوسہ سارا سال چلتا ہے ۔ہمارے اصطبل کا ایریا تقریباً دس بیگھے ہے اگر چارہ کاشت کی گئی ساتھ واقع زمین بھی ملائ جائے تو یہ بیس بیگھے کے قریب ہوگا ۔ مجموعی طور پر ہم نے گھوڑوں کے چارے کے لئے بھی ملا جلا کر کوئ پچاس بیگھے زمین استعمال کر رہے ہیں"۔
" اصطبل کی مرمت و آرائش کا کام اکثر و بیشتر چلتا ہی رہتا ہے۔ یہاں ہم نے بجلی کے لیے سولر سسٹم لگا رکھا ہے۔ ہم اپنے اس اصطبل کو ویڈیو لنک کے ذریعے گھر بیٹھ کر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ہم نے حال ہی میں اپنا ایک نامور اور مہنگا ترین گھوڑا "درشن" فروخت کر دیا ہے مگر دس ماہ کا سفید رنگ میں یہ "لاڈلا" اس کی جگہ آیا ہے. یہ ہم نے دس لاکھ روپے میں خریدا ہے۔ امید ہے یہ بہترین گھوڑا ثابت ہوگا" ۔ ڈاکٹر عاصم نے محبت سے "لاڈلا" کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بات ختم کی ۔
"ہمارے بچپن میں گھوڑے کسی نہ کسی شکل میں ہمارے اردگرد موجود ہوتے تھے۔ اس وقت سب بزرگ ادھر ادھر جانے آنے کے لیے گھوڑیاں ہی گھر میں پالتے تھے ۔تانگے پر سفر بھی معمول تھا چنانچہ گھوڑوں سے قربت فطری سی بات محسوس ہوتی ہے ۔ہمارے گاؤں کے محمد اکبر منہاس ریل گاڑی کے ساتھ ساتھ گھوڑا دوڑایا کرتے تھے ۔جب مندرہ سے بھون ٹرین چلا کرتی تھی ۔انہوں نے ریل گاڑی کو بھی کبھی آگے نہ نکلنے دیا" ۔ ڈاکٹر عاصم سے گفتگو کے دوران اصطبل پر آنے والے 68 سالہ خوش مزاج راجہ ظہور حسین نے یاداشتیں تازہ کر کے بات چیت کا آغاز کیا۔
"میں یوں سمجھیں کہ چوبیس گھنٹے ہی ویڈیولنک کے ذریعے یا یہاں آ کر اپنے گھوڑوں کو دیکھتا رہتا ہوں. میں نے اپنے بچوں کو کبھی اس شوق سے منع نہ کیا ہے. صرف ڈاکٹر عاصم کو ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے تک منع کرتا رہا مگر اس کے بعد کبھی نہیں ۔مجھے پہلے بیل کراہ کا بھی شوق تھا مگر اب زیادہ نہیں رہا زیادہ توجہ بس گھوڑوں پر ہی ہے۔ ہماری بس یہ خواہش ہے کہ نیزا بازی کے ہر مقابلے میں ضلع چکوال کا نام بولتا رہے ۔ابتدا میں لوگوں نے ہمیں بہت کہا کہ یہ مشکل کام ہے ختم کردیں اور مہنگا بھی مگر میرے خیال میں نہ صرف ہماری مالی حالت متاثر نہیں ہوئی بلکہ شاید گھوڑے پالنے کی بدولت اس میں برکت ہوئی ہے" ۔
"نیزا بازی کا کھیل زندہ رہنا چاہیے یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے ۔چکوال کی چاروں تحصیلوں میں گزشتہ کچھ سالوں سے میلوں ٹھیلوں کے انعقاد میں مشکل پیش آرہی ہے۔ جشنِ چکوال اور جشنِ شیرازی چوآسیدن شاہ کا انعقاد نہ ہونا بڑا نقصان ہے۔ تحصیل کلرکہار میں میلہ خیرپور ہوتا ہےاور بس۔ تلہ گنگ میں نیزہ بازی کے مقابلے دو تین سال سے نہیں ہوئے بس کبھی کبھار کوئی شادی بیاہ کے موقع پر منعقد کراتا ہے۔یہ بڑا نقصان ہے"۔ راجہ ظہور حسین نے بات بڑھائی ۔
"ہمارے گاؤں میں راجہ شبیر بھون ایک ساری گھوڑی رکھی ہوئی تھی جو چار سو گھوڑوں بھی دوڑ تھی ۔اس میں کچھ ایسی خصوصیات تھیں ۔اب مہر اعجاز ممبر اور چوہدری فضل الرحمان نے بھی اچھے گھوڑے رکھے ہوئے ہیں ۔تحصیل کلرکہار کے اندر تھوہا ہمایوں میں کامران گھوڑوں کا اچھا ذوق پال رہے ہیں۔ تحصیل چوآسیدن شاہ میں محمد اسلم کھوکھر بالا کے پاس اور مگھال میں بھی اچھے گھوڑے موجود ہیں ۔پیر سید سجاد شاہ جھامرہ شریف، ملک جہانگیر آف کھائی ،چوہدری ظفر تھوہا ہمایوں، عبدالرزاق صاحب اور ملک گلستان خان آف کھائی نے اس علاقے میں اچھے گھوڑے پال رکھے ہیں ۔میرے خیال میں تحصیل کلرکہار میں کل ملا کر سو کے آس پاس گھوڑے نیزابازی کے مقصد کے لیے ضرور موجود ہوں گے "۔
"حکومتی سطح پر نیزا بازی کے فروغ کے لیے ابھی تک تو کچھ بھی نہ کیا گیا ہے۔ ڈسٹرکٹ سپورٹس بورڈز کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنا ہوگا ۔نیزا بازی تو سرکاری سطح پر دیگر کھیلوں کی طرح حکومتی پینل پر موجود ہی نہیں ہے۔ یہ اس خوبصورت کھیل کے ساتھ مذاق ہے۔ہر ضلع میں گھوڑسواری اور نیزابازی کے کلب رجسٹرڈ کرنے کا سسٹم ہونا چاہئے اور اس کے مقابلے سرکاری سرپرستی میں ہونے چاہئیں ۔نیزابازی کے لیے ہمارے ضلع میں میدان ہی مختص نہیں ہے حتیٰ کہ کوئی ایک بھی۔ اس کے لئے محض آٹھ دس بیگھہ زمین ہی چاہیے ہوتی ہے جو انتظامیہ کے پاس نہیں ہے "۔
"موجودہ ڈی سی چکوال کیپٹن (ر)عبدالستار عیسانی نے البتہ نیزا بازی پر کچھ توجہ دی ہے جو نہایت خوش آئند ہے ہے ۔کرونا وائرس کے باعث حال ہی میں جشنِ چکوال تو ملتوی ہوگیا تھا مگر ڈی سی چکوال اس سلسلے میں بہت متحرک تھے ۔انہوں نے کہہ دیا تھا کہ بھلے جتنی ٹیمیں یہاں لے آئیں ہم انتظامات کا ذمہ لیں گے، کھانے پینے اور رہائش کا بندوبست بھی کریں گے ۔انہوں نے پہلی بار نیزا باز وں کو ایک اجلاس میں بلا کر ان سے تجاویز لیں اور یہ بھی کہا کہ چکوال کے اسٹیڈیم میں اس مقصد کے لیے جگہ بھی دی جائے گی ۔اس جگہ پر نیزا بازی کے مقابلے منعقد کیے جائیں گے ۔یہ بہت بڑی ڈویلپمنٹ تھی مگر کرونا وائرس کے باعث مقابلے ہی نہ ہوسکے۔" راجہ ظہور حسین نے تاسف زدہ لہجہ میں بات ختم کی ۔
"گھوڑےپالنا ایک جنون کا نام ہےاور جنون کے بغیر آپ یہ کام کر ہی نہیں سکتے ۔ہمیں اللّٰہ تعالیٰ نے اس شعبے میں اپنے خصوصی کرم سے نوازا ہے اور ہم اس کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے".۔ راجہ عاطف ظہور نے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران بتایا۔
"ضلع چکوال چونکہ بارانی علاقہ ہے چنانچہ یہاں گھوڑے اور دیگر مویشی پالنا نہری علاقوں کی نسبت زیادہ مشکل کام ہے۔ یہاں زیادہ محنت اور توجہ درکار ہوتی ہے۔ گھوڑوں کو پالنے کے لیے یہاں سب سے بڑا مسئلہ سبز چارے کی ساراسال مسلسل فراہمی کا ہے۔ لوسن اور دیگر سبز چارہ ساراسال چاہیے ہوگا کیونکہ بھوسہ گھوڑے کو پسند نہیں اگرچہ وہ اسے کھا لیتا ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے ہمارے علاقے کی اکثر زمین بنجر پڑی رہتی ہیں۔ سال بھر میں یہاں دو بلکہ دراصل ایک ہی فصل اٹھائی جا سکتی ہے۔ ایسے ماحول میں گھوڑے پالنا زیادہ مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطہء پوٹھوہار میں چند گھوڑوں سے زیادہ کوئی نہیں پال سکتا ۔گھوڑوں کی خوراک ساراسال فراہم کرنے کے لیے مصنوعی طریقے استعمال کرنے پڑتے ہیں ان سے یہ شوق اور بھی مہنگا پڑتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ گھوڑوں میں بھی اللّٰہ تعالیٰ نے خیر و برکت رکھی ہے اور ان سے اگر انسان میں کوئی دوسری برائی نہ ہو تو کبھی رزق کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہی رہتا ہے"۔ راجہ عاطف ظہور نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا
"ہم نے جب زیادہ تعداد میں گھوڑے رکھنے کا ارادہ کیا تو پہلے ان کی نگہداشت کے لیے انتظامات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنا ذاتی کلب بنانے سے پہلے ہم نے گھوڑوں کے لیے جگہ کا مناسب بندوبست شروع کیا اس مقصد کیلئے جدید ترین طرز کا اصطبل بنایا جس میں عالمی معیار کے مطابق ہر گھوڑے کے لئے الگ الگ 12×12 فٹ کا کمرہ بنایا گیا۔ اگر گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ اپنی فطرت کے باعث آپس میں جھگڑتے ہیں جسے نقصان ہوتا ہے۔ باندھ کر رکھنے سے بھی گھوڑوں کو نقصان پہنچتا ہے"۔
" 2007ء میں ہم نے اپنے اصطبل میں ذاتی خرچ پر بجلی کھمبے اور ٹرانسفارمر لگائے مگر تب بے تحاشہ لوڈشیڈنگ کے باعث بہت مشکلات کا سامنا رہا۔ جنریٹرز کا تجربہ بھی اچھا نہ رہا۔ پھر ہم نے سولر سسٹم لگا لیا جس بہت سے بہتری پیدا ہوئی اور ہم گھوڑوں کے لیے سبز چارے کو پانی فراہم کرنے کے قابل ہو گئے۔ پانی جیسا کہ ہر کوئی جانتا ہے ہمارے خطے کا بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے کے بعد ہم چالیس سے پچاس بیگھہ زمین پر سبز چارہ کاشت کرنے کے قابل ہوئے۔ ان تمام انتظامات کے بعد ہم نے اپنا کلب بنایا"۔
"اپنا کلب بنانے سے پہلے ہم دوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر نیزا بازی میں حصہ لیتے مگر ہمیں اس کا کوئی خاص صلہ نہ ملتا۔ سارا کریڈٹ اسی کو جاتا جس کے کلب میں ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے تھے۔ ہم نے اپنا الگ سلسلہ شروع کیا تو ہمیں اس میں بھی خدا نے بہت عزت بخشی ہے۔ اس کلب کی بدولت ہمارے علاقے ضلع چکوال کا نام بھی ہر میدان میں گونجنے لگا ہے ،یہی ہمارے لیے باعث فخر اور باعث اطمینان ہے۔ہم نے جب اس میدان میں قدم رکھا تو ہمیں بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا کہ اس کھیل میں سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ اخراجات اور محنت بھی بے پناہ ہے اور انسان کنگال ہو جاتا ہے دوسرے لفظوں میں یہ عقل مند بندے کا کام نہیں ہے"۔ راجہ عاطف ظہور نے ہنستے ہوئے بات جاری رکھی
"جو کچھ بھی ہوا مگر ہمیں اسی شعبے میں بے شمار دوست ملے اور عزت افزائی میں اضافہ ہوا۔چکوال میں دوسرے اضلاع سے ہر نیزہ بازی کے موقع پر آنے والے دوست میرے پاس آ کر ٹھہرتے ہیں اور ہم ان کے پاس جاتے ہیں۔ اس سے ہمارے دوستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے یہی ہمارا حاصل ہیں۔ جب میں نیا اس شعبہ میں آیا تو ضلع چکوال میں یہ کھیل روبہ زوال تھا۔ مقامی طور پر ذاتی کلب بنانے کا تو خیر کوئی تصور ہی نہ تھا۔ اپنے گھوڑے کسی کلب کے نہ تھے اور سب دوست مل جل کر اپنے اپنے اخراجات پر ایک کلب چلاتے"۔
"اب چکوال میں رجحان بڑھ گیا ہے اور یہ کھیل ترقی کر رہا ہے۔پھر بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ میرے خیال میں اس وقت خطہ پوٹھوہار میں میرے علاوہ کسی نے اکٹھے تیس گھوڑے نہیں رکھے ہوئے ہیں ۔چکوال میں اس شعبے سے وابستہ لوگوں سے داد وصول کرنا بھی آسان نہیں ہے البتہ دوسرے علاقوں سے بھرپور داد ملتی ہے ۔میں اس موضوع پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا ہوں مگر یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ کھیل ہم سب کا مشترکہ ورثہ ہے۔ یہ ہماری تہذیب اور ثقافت کا حصہ ہے چنانچہ ہم سب کو مل جل کر اس کے فروغ کے لیے اپنی بہترین کوشش کرنی چاہیے"۔ راجہ عاطف ظہور نے بات ختم کی ۔
بشکریہ: خان غلام دستگیر
|
---|
Related Posts
کلکی اوتار اور حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم
یہ مضمون پڑھ کر آپ کے ایمان کو تازگی ملے گی۔طارق محمود طالب اس کتاب کا مصنف ایک ہندو پنڈت ”وید[...]
نہ بجلی نہ گیس نہ پانی پھر بھی دل ہے پاکستانی
نہ بجلی نہ گیس نہ پانی پھر بھی دل ہے پاکستانی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی رحم دل اور سخی حکو[...]
آستانہ ء قدسی بھون
16-04-2023 اتوارقلندر زماں سید ناصر الدین محمد اسد الرحمان قدسی علیہ رحمتہ برصغیر پاک و ہند کی عظیم [...]
قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں
تحریرراجہ افتخار احمدوزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں شہباز شریف کے پنجاب بھر میں اچانک دو[...]
آسیہ ماری گئی۔۔
تحریر نبیل انور ڈھکونو دس سال قبل گرمیوں کی ایک شکر دوپہر کو میں نے کہیں سے آسیہ بانو کا موبائ[...]
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.