ٖ شاید مجرم ہم خود ہیں وائس آف چکوال (VOC)
ہیڈ لائن

2:26 PM استاد کا احترام

تحریر:ڈاکٹرزاہدعباس چوہدری


  ایک خبر کے مطابق اسلام آباد موٹروے پر خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کا خوفناک واقعہ پیش آیا جسکی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ لاہور کے علاقے گجر پورہ کے قریب موٹروے پر چند جنسی درندوں نے بچوں کے سامنے خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔

 لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے موٹروے پر دوران سفر خاتون کی گاڑی خراب ہوئی تو اس دوران چند نامعلوم افراد اچانک نمودار ہوئے اور کھڑی گاڑی کا شیشہ توڑ ڈالا جس کے بعد ملزمان نے خاتون اور بچوں کو گاڑی سے نکالا اور موٹروے کی حفاظتی تار کاٹ کر انہیں قریبی جھاڑیوں میں لے گئے اور ملزمان نے درندگی کا انتہائی گھناؤنا مظاہرہ کرتے ہوئے خاتون کو بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا اور پھر بعد ازاں گاڑی میں موجود ایک لاکھ روپے کی رقم  لے کر فرار ہوگئے۔ 

پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ واقعہ پیش آنے کے بعد خاتون نے رشتے داروں سے رابطہ کیا۔ ایک رشتے دار کی جانب سے فوری موٹروے پولیس سے رابطہ کیا گیا تاہم ایک گھنٹہ انتظار کے باوجود موٹروے پولیس نہ پہنچی, پولیس اور خاتون کے رشتے داروں کے جائے وقوعہ پہنچنے سے قبل ہی ملزمان خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنا کر فرار ہوگئے۔ 

میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے تاحال اس واقعے کا مقدمہ ہی درج نہیں کیا۔ لاہور پولیس اور موٹروے پولیس کے درمیان اس بات پر تنازعہ پیدا ہوگیا ہے کہ جس جگہ زیادتی کا واقعہ پیش آیا، وہ علاقہ کس پولیس کے حدود میں آتا ہے۔ جبکہ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ سیف سٹی کیمروں کی مدد سے ملزمان کو ٹریس کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔

شاید اس کالم کی اشاعت تک مقدمہ درج ہو جائے اور کچھ نامعلوم ملزمان کی پکڑ دھکڑ بھی عمل میں لائی جا چکی ہو مگر انصاف کی فراہمی پہلے کی طرح مصلحتوں کا شکار نہ ہو جائے اس بات سے دل کانپ اٹھتا ہے۔ دنیا کو چاند فتح کیے ہوئے عرصہ گزرا اور ہم ہیں کہ ابھی تھانوں کی حدود طے کرنے بیٹھے ہیں ۔

 کیا ستم ظریفی ہے کہ بندہ سڑک پہ مر رہا ہوتا ہے اور ہم تھانے کی حدود تلاش کر رہے ہوتے ہیں جذبہ خدمت خلق تو جیسے ناپید ہی ہوتا جا رہا ہے اور دل پتھر کے ہو گئے ہیں, ایک انسان اور اوپر سے عورت ذات اور اجتماعی گینگ ریپ اور وہ بھی بچوں کے سامنے ,زمین پھٹ کیوں نہیں رہی اور آسمان کانپ کیوں نہیں رہا ۔

شاید مجرم ہم خود ہیں کیونکہ ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں,  ہمارے اندر سے احساس نام کی چیز ختم ہو چکی ہے ہم بے حسی کے چلتے پھرتے نمونے ہیں اور اوپر سے ہم اداروں سے انصاف کی فراہمی کی توقع لگائے بیٹھے ہیں,  اگر ہم خود کو ٹھیک کریں گے تو معاشرے میں پائی جانے والی بے حسی,  معاشرے کا بگاڑ اور برائیاں تبھی ٹھیک ہو سکتی ہیں اور اگر ہمیں اپنے اندر کی برائی نظر ہی نہیں آتی تو پھر کسی دوسرے سے اچھائی اور نیکی کی توقع رکھنا فضول ہے۔

اگر میں ایک صحافی ہوں اور اپنا قلم بیچتا ہوں تو کیا مجھے یہ امید رکھنی چاہئیے کہ اس معاشرے سے جس کے ساتھ میں خود نا انصافی کروں مجھے انصاف ملے گا کوئی سبزی فروش,  فروٹ فروش کوئی دکاندار کم تولتا ہے اور ناقص اور غیر معیاری اشیا بیچ کے معاشرے کے ساتھ ناانصافی کا مرتکب ہوتا ہے تو معاشرے سے انصاف کی توقع کیسے رکھ سکتا ہے؟

 زندگی کے ہر شعبے میں چاہے آپ وکیل ہیں,  ڈاکٹر ہیں,  انجینئر ہیں, بلڈر ہیں یا بینکر جب تک آپ معاشرے کے ساتھ انصاف نہیں کریں گے اور دوسروں کے حقوق کا خیال نہیں کریں گے آپ کسی دوسرے سے انصاف کی توقع مت رکھیں جو کچھ آپ کسی کو دیں گے وہی آپ کی طرف لوٹے گا اور یہی قانون قدرت ہے۔

  بات ذرا دوسری طرف چلی گئی لیکن اس کا مقصد یہ سمجھانا تھا کہ اتنا بڑا ظلم اور اتنی بڑی نا انصافی ہونے کے بعد بھی ہم زیادتی ہونے والے کے ساتھ اسے انصاف کی فراہمی کے بجائے اس کا استحصال شروع کر دیتے ہیں , مذکورہ بالا خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا انتہائی قابل افسوس اور قابل نفرت واقعہ ضرور ہے مگریہ پہلا واقعہ نہیں اس طرح کے واقعات روزانہ اخبارات کی شہہ سرخیاں بنتے ہیں ۔

گذشتہ چند سال میں ان واقعات میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور زیادتی کے بہت سے واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جو بدنامی کے ڈر اور خوف کے باعث رپورٹ ہی نہیں ہوتے,  سچ تو یہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام اور ہمارا قانون ایک عام شہری کو انصاف کی فراہمی میں ناکام ہو چکا ہے اور یہی حال رہا تو وہ وقت دور نہیں کہ انصاف کے حصول کے لیے لوگ قانون اور عدالتوں کا سہارا لینا چھوڑ دیں ۔

ڈریے اس وقت سے کہ لوگ انصاف کی تلاش میں خود اٹھ کھڑے ہوں حکومت وقت اگر کسی اور حوالے سے اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام ہے تو کم از کم اس حوالے سے کوئی ایسی قانون سازی ہی کر جائے کی کسی کی عزت تار تار کرنے اور اجتماعی گینگ ریپ جیسے قابل نفرت اور گھناؤنے فعل کا ارتکاب کرنے سے پہلے درندہ بھی سو بار سوچنے پر مجبور ہو جائے,  اللہ تبارک و تعالی; معاشرے کی بہنوں اور بیٹیوں کو ایسی درندگی سے بچائے , آمین ثم آمین. 

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

:) :)) ;(( :-) =)) ;( ;-( :d :-d @-) :p :o :>) (o) [-( :-? (p) :-s (m) 8-) :-t :-b b-( :-# =p~ $-) (b) (f) x-) (k) (h) (c) cheer
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top