ٖ عورت کی آزادی اور اسلامی تعلیمات وائس آف چکوال (VOC)
ہیڈ لائن

2:26 PM استاد کا احترام

تحریر ۔ اقراء تبسم چکوال

اسلام دین فطرت ہے ،انسانی طبیعت سے میل کھانے والا دین ہے ۔ اسلام ترک دنیا،رہبانیت اورجوگی پن کو پسند نہیں کرتا ۔ دین اسلام  نے عورت اور مرد کو ان کی فطرت ساخت و پرداخت کے مطابق حقوق دئیے ہیں اور یہ  حقوق  انتہائی  جامع اور متوازن  ہیں۔


اسلام  نے دونوں کو اپنی  اپنی  ذمہ داریاں بطریق احسن نبھانے کی ترغیب دی ۔بالخصوص عورت کے حقوق کی جانب توجہ  مرکوز کروائی  کیونکہ  عورت زمانہ جاہلیت سے ظلم و ستم،  اذیت ، حقارت و ذلت کی چکی میں پستی آ رہی تھی۔ہمارے پروردگار نے اسے قحرومذلت سے نکالنے کیلئے فطرت کے تقاضوں کے مطابق اس کے حقوق وواجبات بیان  فرمائے  ہیں۔ ان احکامات میں افراط ہے اور نہ  ہی تفریط یہ بالکل ضابطہ عدل کے موافق احکامات  ہیں ۔اسلام نے کنبےوخاندان کا بوجھ ، بیرونی معا ملات کا انتظام اور معاشی ذمہ داریاں مرد پر ڈال دی،  اور گھریلو معاملات اور بچوں کی نگہدشت و  تربیت  کو عورت کے کندھوں پر ڈال دیا ، کیونکہ  دین اسلام میں عورت کامقام گھر ہے،  گھروں میں بیٹھی رہو اور  زمانہ جا ہلیت کی طرح بناو سنگھار دکھاتی نہ پھرو(سورتہ الاحزاب ۳۳)۔ لیکن کیا آج کی عورت بھی  ان احکامات پر عمل کر رہی ہے ؟ 


کچھ ہی  عرصہ قبل کی بات  ہے کہ  مغربی ثقافت اور سوچ کو یہاں پھیلانے کے لیےکام کرنے والی چند  نام نہاد این جی اوز  (NGOs)  نے پاکستان کے اہم  اور تمام  مرکزی شہروں میں خواتین کےحقوق اور ان کی آزادی کے نام پر ایک مظاہرہ کا انعقاد کیا ۔اس مظاہرہ کے ذریعے یہ  پیغام دیا گیا کہ آج کی عورت مکمل طور پر آزاد  ہے اور وہ اپنے  فیصلوں کے لیے کسی مرد، پھر  چاہے وہ باپ ہو یا بھائی ،  شوہر ہو یا بیٹا،  کسی کے زیر اثر نہیں ہیں ۔اس مغربی کلچر کے  مظاہرے  کا نعرہ"  میرا جسم میری مرضی" تھا۔اس نعرے نے سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے لوگوں کی توجہ حاصل کی اور بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے اپنے غم و غصہ کے ساتھ ساتھ تعجب کا اظہار کرتے ہوئے اظہار کیا کہ  یہ  اسلامی ریاست میں عورتوں کو کونسی تعلیم دی جا رہی ہے؟ اور  یہ  کون سے  حقوق کی بات کی جاری ہے ؟  یہ کیسا مارچ کیا جارہا ہے جسکا مقصد شرم و حیا کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری اسلامی و معاشرتی قدروں کو بھی دفن کیا جاسکے۔  اس عورت مارچ کا مقصد  مغرب کی طرح پاکستان میں بھی بے حیائی اور بے راہ روی کو ہوا دی جائے ، اور اسکے ساتھ ساتھ  پردے اور شرم و حیا کی ریاست   کو فری سیکس سوسائٹی بنا دیا جائے۔ 

لیکن اس سے بھی زیادہ دردناک اور حیرت انگیز بات تو یہ تھی کہ اس نام نہاد  مظاہرے کے صرف  دو ہفتے بعد ہی پاکستان  کے ایک انگریزی اخبار نے خبر شائع کی جسے پڑھ کر محسوس ہوا کہ کس طرح پس پردہ اسلامی جمہوریہ  پاکستان میں  بے شرمی اور بے غیرتی کو بڑھانے کیلئے انتہائی منظم انداز میں کام ہو رہا ہے اور ہماری قوم بے فکر ہو کے بیٹھی ہے۔ بلا شبہ کسی کے بھی ارادوں اور منصوبہ بندی کو جاننے کےلیے  یہ خبر کسی اشارے سے کم نہیں تھی لیکن اس کو بھی عمومی طور پر نظر انداز  کردیا گیا ۔ ا س خبر کے مطابق رضامندی سے زنا کو جائز  قرار دینے کیلئے اقوام متحدہ کی ایک تنظیم کی سفارشات کو پاکستان میں  رد  (ریجیکٹ) کرنے کی بجائے  (نوٹڈ) کے طور پر محفوظ کرلیا گیا ۔جس کا  مطلب آئینہ کیطرح  صاف  و شفاف ہے کہ پاکستان اس تنظیم کی  ان سفارشات پر غور کرے گا۔جبکہ ماضی میں 2008اور 2012میں اس تنظیم نے کچھ ایسی ہی  دوسری  متنازعہ سفارشات کے ساتھ  رضامندی کے لیے  بھی تجاویز دی تھیں۔ اور  دونوں مرتبہ  ہی پاکستان نے سفارشات کو صاف  صاف  مسترد کیا تھا ۔ مگر تاحال حکومتی  سطح پر اسکی روک تھام کے لئے  کوئی واضع  اقدامات نہیں کیے گئے۔ 


دوسری جانب 11 مارچ 2021  کو صوبائی  اسمبلی  سندھ  میں قرارداد پیش کی گئی جسکے مطابق  پاکستان کے بیشتر شہروں میں 8 مارچ 2021 کو ہونے والے نام نہاد عورت آزادی  مارچ کی آڑ میں ہمارے پیارے نبی (ص)  اور  حضرت عا ئشہ کی ذات  پاک اور اسلامی اقدار و روایات  کی تضحیک کی گئ ہے۔ جبکہ  اس مملکت خداداد  پاکستان کی  بنیاد  کلمہ حق پر قائم ہے اور  ہمارے  مذہب میں تو عورت کے حقوق مرتبے اور مان کو یقینی  بنایا گیا ہے۔

بحیثیت مسلمان ہمارا یہ  ایمان ہے کہ  ہمارے آخری اور  پیارے رسول ﷺ نے  چودہ  سو سال پہلے ہی عورت کے حقوق کے بارے میں  بتا دیا تھا۔تو اب یہ کن حقوق کی بات کی جارہی ہے؟ نبی کریم (ص) کے امتی ہونے کی وجہ سے ہمارا اس نام نہاد عورت مارچ  کو یہی جواب  ہے کہ  ہماری چادر ہمارا تحفظ   اور ہمارا گھر ہی ہماری جنت ہے ۔ 

ہماری وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری،  وزیر داخلہ  شیخ رشید کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر مذہبی امور سےگزارش ہے کہ وہ ملکی سطح پر ایسے انتشار پسند،  مغربی کلچر کو پروموٹ کرنے والے  دھرنوں اور مارچوں کو روکوانے کےلیے فلفور احکامات جاری کریں۔ اور عورت مارچ کے نام پر ہونے والے بےہودہ اور غیر اخلاقی اقدام کو پاکستان کی بقاء کےلیے ہمیشہ کےلیے بین کروانے کے احکامات جاری کرنے  چاہیے۔ اور اسکے ساتھ ساتھ ایسے غیر اخلاقی مارچ کے منتظمین اور شرکاء کو قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں تاکہ دوبارہ کوئی ایسا بےہودہ اور غیر اخلاقی مارچ کرنے کی جرت نہ کرئے۔ 

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

:) :)) ;(( :-) =)) ;( ;-( :d :-d @-) :p :o :>) (o) [-( :-? (p) :-s (m) 8-) :-t :-b b-( :-# =p~ $-) (b) (f) x-) (k) (h) (c) cheer
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top