یہ بات سچ ہے کہ بدمعاش، مکار اور غنڈے ہر دور میں ملتے رہتے ہیں کیونکہ اگر دنیا میں سارے ہی نیک صالح ہوجائیں گے تو پھر مکاریاں، دھوکے، فراڈ، غنڈہ گردیاں اور چوریاں، کون کرئے گا اور اگر سارے ہی بے ایمان اور مکار ہو جائیں تو دنیا میں نیک و صالح کام / عمل کون کرئے گا، دین اور دنیا میں فرق کون بتائے گا، اچھا اور برا راستہ کون دیکھائے گا۔ چونکہ دنیا فانی اور گھاٹے کی جگہ ہے تو اسلیے یہ دونوں بیک وقت دنیا میں موجود رہتے ہیں، اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ کونسا راستہ منتخب کرتا ہے۔ دنیا کے قائم ہونے سے لیکر تاحال اور دن قیامت تک یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
 | تحریر:محمدنثارٹمن |
سوڈان سے تعلق رکھنے والے "کولو اور ماہا " تاریخ میں مہان مکار اور دھکے باز گردانے جاتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ شاید ہی پھر تاریخ میں ان جیسے بڑے مکار اور فریبی دوبارہ مل سکیں گے۔ یہ دونوں مکار جب بھی ایک دوسرے کے سامنے آتے تھے تو مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کے گلے لگ جاتے تھے، اور پھر خوب ہنسی ، مذاق کرکے ایک دوسرے کے ساتھ کافی دیر تک لپٹے رہتے تھے۔ ایک دفعہ کولو اور ماہا دونوں اپنی پیٹھ پر ایک بڑی سی ٹوکری لاد کر جارہے تھے، راستے میں دونوں کی ملاقات ہوگئی، کولو نے ماہا سے پوچھا "ماہا تیری ٹوکری میں کیا ہے؟" ماہا نے کہااا کہ " اندر بہت سارے تازہ تازہ پھاوڑے ہیں" جو میں بیچنے جارہا ہوں۔ جبکہ ماہا نے کولو سے پوچھا " تیری ٹوکری میں کیا چیز ہے ؟ کولو نے جواب دیا کہ " میری ٹوکری میں دیسی مرغ ہیں" اور میں بھی انکو بازار بیچنے جارہا ہوں۔لیکن اندر ہی اندر دونوں ہی ایک دوسرے کو دھکا دے رہے تھے۔ بالاخر دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ٹوکریاں تبدیل کریں گے۔ دونوں مکاروں نے خوشی خوشی اپنی ٹوکریاں تبدیل کی اور فورا" ہی رفو چکر ہوگئے۔ دونوں ہشاش بشاش تھے، دونوں سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے آج خوب فراڈ کیا ہے۔ لیکن پھر کیا ہوا۔۔ جیسے کولو نے ٹوکری کو کھولا تو دیکھا کہ ماہا کی ٹوکری میں تازہ پھاوڑے نہیں بلکہ خشک لکڑیاں تھی، جبکہ ماہا نے جیسے ہی کولو کی ٹوکری کھولی تو دیکھا کہ کولو کی ٹوکری میں بھی دیسی مرغ نہیں بلکہ "کالا کوا" تھا اور وہ بھی پھررررر کرکے اڑ گیا۔
دونوں مکارو "کولو، ماہا" کو بہت جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ تھا کہ سوڈان میں ان سے بڑھ کر کوئی بھی مکار اور چالاک نہیں ہے، ایک دوسرے کو اچھی طرح آزمانے کے بعد دونوں نے فیصلہ کیا کہ اگر ہم دونوں ملکر مکاریاں کریں گے تو یقینا" ہم سے بڑا کوئی بھی مکار اور دھکے باز نہیں ہوگا اور ہمارے کارناموں کے چرچے بھی خوب ہونگے ۔ اس فیصلے کے بعد کولو، ماہا ایک ساتھ رہنے لگے اور ملکر کر چالاکیاں کرکے عوام الناس کو تنگ کرنے کی ٹھان لی۔ کولو اور ماہا نے متفق فیصلہ کیا کہ وہ علاقے کی نادان و ناسمجھ عوام کے ساتھ ساتھ پیسوں والے افراد کو اپنا شکار بنائیں گے اور ان سے مال بٹوریں گے تاکہ انکے پاس مال و دولت کے انبار لگ جائیں۔ چند ہی روز گزرنے کے بعد کولو، ماہا نے ایک مالدار آدمی کو لوٹنے کا منصوبہ بنایا اور اسکے گھر کیطرف چل پڑے۔ گھر کے دروازے پر دستک دی اور پوچھنے پر بتایا کہ وہ " بہت دور سے آرہے ہیں اور انکے پاس بادشاہ کےلیے خاص نسل کا مرغ ہے جو انہوں نے بادشاہ سلامت تک پہنچانا ہے، لیکن سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے وہ تھوڑا آرام کرنا چاہیتے ہیں" مالدار شخص نے سوچا کہ " شاید یہ دونوں معصوم شکلوں والے شاہی قاصد ہیں، اسلیے اس نے انکو گھر میں رہنے کی اجازت دے دی۔ کولو، ماہا کے پاس ایک ٹوکری تھی، مالدار شخص کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ اسکے اندر بادشاہ سلامت کے مرغے بند ہیں، جو ہم نے انکو دینے ہیں۔ حالانکہ ٹوکری کے اندر ایک جنگلی بلی بند تھی اور اوپر کی سطح پر مرغے کے پر رکھے ہوئے تھے۔ اندر داخلے ہوتے ساتھ ہی ان مکاروں نے کہا کہ " اگر یہاں بادشاہ سلامت کے مرغ کی حفاظت کی ذمہ داری آپ لیں گے تو ہم یہاں رات گزارنے کےلیے تیار ہیں"۔ مالدار شخص مکمل حفاظت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انکو اندر لے گیا۔ آدھی رات کو اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کولو ماہا نے شور مچانا شروع کردیا دیا " جاگو جاگو !!!!! بادشاہ کے مرغ کو جنگلی بلی نے کھالیا ہے" مالدا ر شخص یہ سن کر فورا" انکی مدد کو لپکا لیکن دیکھتا ہے کہ پورے کمرے میں مرغے کے پر پھیلے ہوئے ہیں اور جنگلی بلی کمرے سے نکلنے کےلیے ادھر ادھر سر مار رہی تھی، جبکہ کولو ماہا دونوں ایک کونے میں سر پکڑ کر پریشان حال شکلیں بناکر بیٹھے تھے۔ مالدار شخص نے گھبراتے ہوئے کہا " دیکھو آپ مجھ سے اسکا ہرجانہ لے لو لیکن مجھے معاف کردو" بس پھر کیا کولو ماہا تو اسی تاک میں تھے، بحث کرتے کرتے مالدار شخص سے لاکھوں روپے کی مالیت کے زیورات لیے اور رفو چکر ہوگئے۔ اور دل ہی دل میں دونوں بہت خوش تھے کہ آج تو ہم نے بہت بڑا تیر مارلیا ہے، آج تو خوب مکاری کرلی ہے۔
لیکن کبھی کبھی ایسا ہوجاتا ہے کہ مکار اور چالاک اپنی ہی چالوں میں پھنس جاتے ہیں۔ کولو ماہا کا انجام بھی کحچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک دن یہ ایک غلام زادی اور اسکے جوان بیٹے کو پکڑ کر زبردستی اپنے گھر لے آئے۔ دونوں نے ان سے سارے گھر کے کام کروانا شروع کردئیے۔ چونکہ دونوں لالچی تھے اسلیے دونوں نے سوچا کہ وہ لوٹی ہوئی ساری دوولت کے اکیلے مالک بن جائیں۔ایک دن کولو نے ماہا سے کہا کہ "آج مچھلی کھانے کا بہت دل کررہا ہے، چلو دریا سے مچھلی پکڑ کرلیتے ہیں" اور دونوں مچھلی پکڑنے چلے گئے۔ دونوں نے ہی ایک دوسرے کو جان سے مارنے کا پلان بنا رکھا تھا۔ ماہا نے نوکرانی کو کہا کہ " جب تک ہم مچھلی پکڑ کر لاتے ہیں، تم چاول بناکر رکھنا" ۔ مچھلی پکڑنے کے دوران ماہا، کولو سے چھپتے چھپاتے گھر آیا اور چاولوں کے پیالے میں زہر ملا کر واپس چلا گیا۔ اسی دوران کولو، ماہا کو غائب دیکھ کر سمجھ گیا کہ یہ کوئی سازش کررہا ہے۔ چناچہ کولو نے ماہا کو واپس آتے ہیں، تیز دھار چاقو سے وار کرکے ہلاک کردیا اور مچھلی لیکر گھر چلاگیا۔کولو نے گھر پہنچتے ہیں فورا" چاولوں کا بھرا ہوا پیالہ کھالیا۔ چند ہی لمحے بعد زہر نے اثر دیکھانا شروع کردیا اور اسکی موت واقع ہوگئی۔ ان کے مرتے ہی انکی لوٹی ہوئی ساری دولت پر غلام زادی اور اسکے جوان بیٹے نے قبضہ کرلیا اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔
یہاں یہ بات کہنا بلکل بھی غلط نہیں ہوگی کہ تاریخ اپنے آپ کو ضرور دوہراتی ہے، اگر موجودہ سیاسیی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اپنے علاقائی / نیشنل لیول کے سیاسیی سسٹم کے اندر بہت سارے کولو اور ماہا نظر آئیں گے۔ آج سے سینکڑوں سال پہلے کولو اور ماہا کی مکاریاں، فراڈ، دھوکے، چالاکیاں اور فریب انکے ساتھ دفن نہیں ہوئے، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتے رہے۔ کولو اور ماہا تو اپنے انجام کو پہنچ گئے تھے، لیکن انکی چالاکیاں، مکاریاں، دھوکے ، فراڈ ، جھوٹ، فریب ہمارے معاشرے میں ناسور بن کر عوام الناس کےلیے وبال جان و مال بنتے رہے۔
ہماری علاقائی / نیشنل سیاست میں ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جانے والے سیاستدان بھی موقعہ کے مناسبت سے اپنے مفاد ات کے حصول کےلیے کولو اور ماہا کیطرح ایک ہوجاتے ہیں، اور ملکر عوام الناس کو لوٹتے ہیں، نہ صرف عام عوام کو بلکہ اپنی اپنی الیکشن مہمات میں مالدار اور اثر و رسوخ رکھنے کاروباری شخصیات کو بھی جھوٹے لارے لپے لگاکر اپنے ساتھ ہمقدم کرتے نظر آرہے ہوتے ہیں، الیکشن جیتنے کے بعد اقتدار میں آنے پر انکو طرح طرح کی آسائشیں اور پاور دینے کے وعدے کرکے انکو ATM کے طور پر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ جلسوں میں، ریلیوں میں، محفلوں میں، مختلف سیاسیی تقریبات میں، سیاسیی ظہرانوں ، کھانوں، ٹی بریکوں میں، پروجیکٹس کی افتتاحی تقریبات میں، شادی بیاہ کی تقریبات میں ، چوک چوراہوں کے افتتاحوں میں، مختلف سیاسیی رنگ کے میلوں میں ان سے خوب پیسہ خرچ کرواتے ہیں۔ یہ سیاسیی کولو ماہا سیاستدان نہایت چالاکی اور مکاری کے ساتھ، خوش آمدی رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے ہر بینر میں، ہر اشتہار میں اپنے ساتھ اپنے ATM انسوٹرز کی رنگین تصویریں لگوا کر جلتی پر تیل کا کام بھی لیتے ہیں۔ یہ سیاسیی لیڈران اور انکے ٹووٹس کولو اور ماہا کے روائتی مکاریوں کے طریقہ کاروں کو استعمال کرکے دونوں ہاتھوں سے اپنے انسوسٹرز کو لوٹتے ہیں، جبکہ عام عوام سے بھی چھوٹے سے چھوٹے کام کےلیے بھی اپنے ٹاوٹس کے ذریعے مال بٹورتے ہیں۔
دن بدن بدلتے سیاسیی و معاشرتی حالات کو دیکھتے ہوئے اس بات کا بخوبی معائنہ کیا جاسکتا ہے کہ کل تک ایک دوسرے کے خلاف سیاسیی بیان بازیاں کرنے والے، ایک دوسرے کی عزتیں اچھالنے والے، ایک دوسرے کو سوشل میڈیا برگیڈ کر ذریعے ماں بہن کی گالیاں دلوانے والے، ایک دوسرے کو ایک نظر برداشت نہ کرنے والے، ایک دوسرے پر لفظوں کے تیر چلانے والے، ایک دوسرے کو سیاسیی یتیم کہنے والے، ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے والے سیاسیی پردھان ، مختلف مقامات پر کولو اور ماہا کیطرح یک جسم اور یک جان نظر آرہے ہیں۔ اس سے ثابت ہورہا ہے کہ آج بھی کولو اور ماہا زندہ ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی کے کولو ماہا سرعام عوام اور مالداروں کو لوٹتے تھے اور آجکل کے سیاسیی کولو اور ماہا ، عوام کو اندر ہی اندر سے لوٹتے رہتے ہیں، کبھی کسی کام کی مد میں تو کبھی کسی کام کی مد میں، اور اسکے ساتھ ساتھ امیروں کو بھی مختلف لالچیں اور منصوبے دے کر انکو ATM کے طور پر استعمال کررہے ہوتے ہیں۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے اردگرد کولو اور ماہا جیسے کردار موجود تو نہیں ہیں۔ پھر چاہے وہ سیاسیی ہوں یا علاقے کے ملک اور سردار۔ کہیں ہم انکے ہاتھوں کی کٹہ پتلی تو نہیں بن رہے ؟ انکی چکنی چوپڑی باتوں سے ہم اپنے رشتے، وقت، سرمایہ، جذبات اور دوستیاں تو نہیں ختم کر رہے ؟؟؟ انکے ہاتھوں میں کھلونے کیطرح استعمال تو نہیں ہو رہے ؟ انکے سیاسیی، سماجی، معاشرتی مہرے تو نہیں بن رہے ؟ انکے فریب میں آکر اپنوں سے لڑائیاں جھگڑے تو نہیں کر چکے ؟ انکے کہنے پر اپنے کردار کو مشکوک اور منافقانہ تو نہیں بنا رہے؟ کیونکہ کولو اور ماہا کیطرح یہ لوگ صرف اور صرف اقتدار ، دولت اور کرسی کے پجاری ہوتے ہیں۔ کرسی اور اقتدار حاصل کرنے کےلیے یہ کولو اور ماہا کیطرح مکاریاں، چالاکیاں کرکے ہمیں استعمال کرتے ہیں، اور اپنا مفاد نکل جانے کے بعد آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں۔ اسلیے ہمیں چاہیے کہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے پیاروں کے مال و دولت اور عزت و وقار کا سودا نہ کریں۔ کیونکہ یہ سیاسیی کولو، ماہا مرتے مر جاتے ہیں لیکن کسی کے دوست نہیں ہوسکتے ہیں۔ |
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں