تحریر : محمد نثار ٹمن 1985 میں اٹک اور جہلم کے کحچھ حصوں کو ملاکر بننے والا ضلع چکوال ( تقریبا" 6524 کلومیٹر ) رقبے پر محیط ہے۔ اسکی پانچ تحصیلیں ہیں جن میں چکوال، کلرکہار، چواسیدن شاہ، تلہ گنک اور لاوہ شامل ہیں جبکہ اسکی کل آبادی لگ بھگ 15 لاکھ افراد کے قریب ہے۔ چکوال کو اپ گریڈ کرتے وقت ، تحصیل تلہ گنگ کو ضلع اٹک سے منسلک کیا گیا تھا اور اس وقت اسے ضلع چکوال کا دوسرا سب ڈویژن بنایا گیا تھا۔ پانچ تحصیلوں میں تلہ گنگ سب سے بڑی اور گنجان آبادی پر محیط تحصیل ہے۔ اس میں تقریبا" 17 یونین کونسلز، 80 کے قریب چھوٹے بڑے دیہات / گاوں، 320 کے قریب مختلف تعلیمی ادارے (سکولز ، کالجز) اور 3 پولیس اسٹیشن شامل ہیں ۔اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو تحصیل تلہ گنگ لگ بھگ 85 سال تک (1901-1985) تک انتظامی طور پر ضلع اٹک کے زیر اثر رہا ہے اور 1985 میں جب چکوال کو ضلع بنایا گیا تو اس علاقے کو اسکے ساتھ منسلک کردیا گیا۔ اسی سال یعنی 1985 میں پاکستان میں غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے، تو ان کے ذریعہ ذات، برادری، دولت و حیثیت اور روایتی سیاسیی خاندانوں کو استحکام بخشا گیا۔ اس استحکام کی بدولت خاندانی سیاستدان ہر مرتبہ منتخب ہوکر اسمبلیوں تک پہنچتے رہے ہیں۔ 1985 سےلیکر تاحال یہاں کی سیاست نظریات کی بجائے مخصوص خاندانوں کے گرد گھومتی آرہی ہے۔ یہ چند مخصوص لوگ مخصوص سیاسیی جماعتوں کے ٹکٹس پر الیکشن لڑتے ہیں اور اگر پارٹی انکو ٹکٹ نہ دے تو یہ فورا" ہی کسی بھی دوسریسیاسیی جماعت کے ساتھ الحاق کرلیتے ہیں۔ بلفرض متبادل پارٹی بھی ٹکٹ سے محروم رکھے تو یہ آزاد حیثیت سے الیکشن میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اسی موورثی سیاسیی پالیسی کی وجہ سے انہوں نے اپنے اپنے مخصوص علاقوں میں اپنی سیاسیی اجارداری اور وڈیرہ شاہی قائم کررکھی ہے۔ اپنے لیے حمایتی، مالی سپورٹرز اور موورثی طور پر سیاسیی اثرورسوخ رکھنے والے افراد کو پال رکھا ہے، جو الیکشنز میں انکے دست راست بنکر انہیں ہر طرح کی مدد فراہم کرتے ہیں۔ 1985 سے لیکر تاحال تلہ گنگ کی علاقائی سیاست میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی رونما نہ ہوسکی۔ لگ بھگ 36 سال سے یہاں کے وڈیرے اور موورثی سیاستدانوں کی سیاست ایک ہی ڈگر پر چلی آرہی ہے ۔سال 1988 سے لیکر 2018 تک کے الیکشنز تک تمام سیاسیی جماعتوں نے "ضلع تلہ گنگ" کے نعرے کو انتخابی مہمات کے دوران "قومی نعرے" کے طور پر استعمال کرکے عوام کے جائز حق پر ڈاکہ ڈالتے آرہے ہیں۔ سال 2014 میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی ڈاریکٹو آرڈر کا ایک عدد ردی کاغذ بنام ضلع تلہ گنگ ایشو کیا تھا اور ہمیشہ کیطرح میاں جی نے بھی یہ چورن بیچ کر عوام کی داد موصول کرلی تھی۔ ابھی چند روز پہلے موجودہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے چئیر مین اور وزیراعظم عمران خان کیطرف سے بھی متعلقہ انتظامیہ کو تحصیل تلہ گنگ کی اپ گریڈیشن کےلیے ایک عدد سرکاری ڈاریکٹو آرڈرز جاری ہوچکا ہے، لیکن تاحال تلہ گنک کی سیاسیی بے یارو مددگار عوام کو اس حوالے سے کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے۔ دوسری جانب این اے 65 کی تمام سیاسیی جماعتیں ڈاریکٹو آڈرز کےلیے کریڈیٹ کریڈیٹ کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں لگے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تمام سیاسیی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام ترشی کرتی نظر آرہی ہیں، کوئی پوائنٹ سکورنگ کے چکر میں لگا ہے تو کوئی عوام کی داد موصول کرکے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔ اس تحریک نے اور سیاسیی پوائنٹ کورنگ کی رفتار نے اس وقت مزید زور پکڑ لیا جب حکمران جماعت کی اتحادی ق لیگ کے صوبائی وزیر معدنیات حافظ عمار یاسر نے "ضلع تلہ گنگ" کے حوالے نے بیان دیا کہ " ضلع تلہ گنگ قابل عمل منصوبہ نہیں ہے" ۔ اس مایوس کن بیان کے آتے ہی سوشل میڈیا پر سوشل ورکرز اور سیاسیی جماعتوں کیطرف سے مسلم لیگ ق پر تنقید کے تیروں کی بارش شروع ہوگئی، تحریک انصاف، نون لیگ اور باقی سیاسیی جماعتوں نے حافظ عمار یاسر کے اس مایوس کن بیان کی شدید الفاظ میں مزاحمت کی اور انکا کہنا تھا کہ اگر "ضلع تلہ گنگ" قابل عمل منصوبہ نہیں ہے تو اپنی الیکشن مہمات کے دوران یہ چورن کیوں بیچا گیا ہے ؟ عوام سے کیوں جھوٹ بولا گیا؟ عوام کی آنکھوں میں کیوں دھول جھونکی گئی؟ عوام کو کیوں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاکر ان سے ووٹ حاصل کیے گئے ؟ آخر کب تک تلہ گنگ کی عوام کو دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں گی ؟ کب تک عوام اپنے مسائل کی پوٹلیاں اٹھا کر چکوال جاتی رہے گی ؟ کب تک عوام کو چھوٹے چھوٹے کاموں کےلیے گھنٹوں لمبی لائن میں کھڑا ہونا پڑے گا ؟ کب تک عوام کو بنیادی ضروریات کے ضروری کاغذات بنوانے کےلیے گھنٹوں روڈ پر ٹرانسپورٹ کےلیے زلیل و رسو ا ہونا پڑے گا؟ اس وقت سوشل میڈیا پر "تلہ گنگ کو ضلع بناو" تحریک زور و شور سے جاری ہے۔ ابھی تک سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان، سوشل ورکرز، سیاسیی و سماجی کارکن، صحافی برادری، اساتذہ کرام، ڈاکٹرز الغرض تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اس تحریک کا حصہ بن چکے ہیں اور نہ صرف ضلعی سطح پر اس تحریک کو چلایا جارہا ہے بلکہ بیرون ملک سے بھی کثیر تعداد میں نوجوانوں نے اس تحریک کو جوائن کرلیا ہے۔ سعودی عرب میں مقیم نوجوانوں کیطرف سے "ضلع تلہ گنگ" کےلیے اسپیشل دعائیں بھی کی گئی ہیں ۔ سوشل میڈیا پر موجود تمام افراد کا کہنا ہے کہ اب یہ تحریک "ضلع تلہ گنگ " کے نوٹیفکیشن جاری ہونے تک ایسے ہی چلے گی اور کسی قسم کی سیاسیی یا حکومتی ہیرا پھیری میں نہیں آیا جائے گا۔ تمام افراد کا ایک ہی نعرہ، "بناو تلہ گنگ ضلع ہمارا" بناو تلہ گنگ ضلع ہمارا"۔ تحریک کے شرکاء کا کہنا ہے کہ اس بار ہمیں سیاسیی پارٹی بازیوں سے بالا تر ہوکر "ضلع تلہ گنگ" کےلیے کوشش کرنی ہے ، تمام اختلافات کو ایک طرف رکھ کر، صرف مشترکہ مفاد کو اپنانا ہے، نون، ش، ق، پی ٹی آئی سب کو بھول کر عوامی مفاد کو سامنے رکھنا ہے۔ ہماری وزیراعظم پاکستان عمران خان ، اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی، وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور صوبائی وزیر معدنیات عمار یاسر سے گزارش ہے کہ خداراہ اب تلہ گنگیوں کے حال پر رحم کریں اور نصف صدی سے چلی آرہی تحصیل کو "ضلع تلہ گنگ" بنایا جایا تاکہ عوام کو درپیش مسائل میں کمی واقع ہوسکے۔ |
---|
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں