ٖ میڈیا کو فراہم کی جانیوالی ملزمان کی تصاویر نا قابل شناخت کیوں؟ وائس آف چکوال (VOC)
ہیڈ لائن

2:26 PM استاد کا احترام

🖊️ڈاکٹر زاہد عباس چوہدری 

قتل، اغوا،ڈکیتی اور چوری کے علاوہ آئے روز پنجاب بھر کے سینکڑوں تھانوں کی حدود میں جرائم کے ہونے والے ہزاروں واقعات روزانہ پرنٹ اور سوشل و الیکٹرانک میڈیا پہ رپورٹ ہوتے ہیں اور بے شمار واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جو کئی وجوہات کی وجہ سے رپورٹ ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ صحافت کے عملی میدان میں ایک طویل عرصہ گزار چکے ہیں لیکن گزشتہ ایک سال سے کچھ ایسے معاملات دیکھنے کو مل رہے ہیں جو ماضی میں کبھی نظر سے نہیں گزرے۔ چند روز قبل بھی چکوال کی حدود میں تشدد اور غیر انسانی سلوک کا ایک ایسا واقعہ ہوا جسکی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اس غیر انسانی واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور ان کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی لیکن یہاں ایسے واقعات کے بارے میں کچھ لکھنا یا کتنے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اور کتنے رہ جاتے ہیں میرا مقصد نہیں ہے بلکہ میرا مقصد کچھ اور ہے جس کی آگے چل کر وضاحت کرتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ نفرت جرم سے ہونی چاہئیے انسان سے نہیں لیکن عوام کی آگاہی کے لیے کم از کم ملزمان کے چہروں تک عوام کو رسائی ضرور ہونی چاہئیے اور میڈیا کو دی جانے والی ملزمان کی تصاویر کم ازکم ایسی ہوں کہ وہ قابل شناخت ہوں۔ حیرانگی کی بات ہے کہ پنجاب پولیس کی طرف سے گزشتہ چند ماہ سے میڈیا کو ایسی تصاویر فراہم کی جاتی ہیں جن میں ملزمان کے چہروں کو نا قابل شناخت بنا دیا جاتا ہے اس کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ اس بارے میں پولیس کے چند قریبی دوستوں سے پتہ چلا کہ آئی جی پنجاب کے حکم سے ایسا کیا جاتا ہے کیونکہ ٹارگٹ کلنگ کا خطرہ ہوتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اگر پولیس کسٹڈی میں ملزمان کو ٹارگٹ کلنگ کا خطرہ ہے تو پھر سیکیورٹی پر سوال اٹھتے ہیں سکیورٹی کی نا اہلی کا یہ مطلب نہیں کہ آپ میڈیا کی ملزمان تک رسائی ہی بند کر دیں جب کسی وقوعہ میں ملزم کا نام،ولدیت اور سکونت لکھ دی جاتی ہے تو تصویر کو نا قابل شناخت بنانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا کچھ دوستوں کے نزدیک مقدمات میں ملزمان کی شناخت پریڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے ملزمان کے چہرے نا قابل شناخت بنا دیے جاتے ہیں جبکہ اس کی بھی کوئی تک نہیں بنتی کیونکہ ایف آئی آر کے اندراج کے وقت اگر ملزم نامزد ہیں تو پھر شناخت پریڈ ایک قانونی معاملہ ہی رہ جاتا ہے اور اس وجہ سے میڈیا کو فراہم کی جانیوالی تصاویر میں ملزمان کے چہروں کو نا قابل شناخت بنانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔


اگر کوئی انتہائی حساس معاملہ ہے دہشت گردی یا قتل کے مقدمات میں تو ملزمان کے چہروں کو پوشیدہ رکھنا سمجھ میں آتا ہے لیکن چوری ڈکیتی، منشیات فروشی اور دیگر کیسوں میں گرفتار ملزمان کے چہرے پوشیدہ رکھنا سمجھ سے باہر ہے

جبکہ تھانہ چونترہ میں ایک ہفتہ قبل عورت کے ساتھ زیادتی اور بچے کے قتل کا انتہائی بیہمانہ واقعہ ہوا۔بعد ازاں صدمے سے مذکورہ عورت بھی زندگی کی بازی ہار گئی لیکن ملزم کی گرفتاری کے بعد ملزم کے چہرے کو ناقابل شناخت نہیں بنایا گیا اور ملزم کی اصل چہرے کے ساتھ ہی خبر میڈیا کو فراہم کی گئی۔ یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ دوہرا میعار کیوں ,کہاں تو چھوٹے چھوٹے کیسوں میں ملزمان کی میڈیا کو فراہم کی جانیوالی تصاویر میں ملزمان کے چہروں کو نا قابل شناخت بنا دیا جاتا ہے تو اتنے بڑے کیس میں اس پالیسی کو فالو کیوں نہیں کیا گیا جبکہ یہ امر بھی حیران کن ہے کہ ملزمان کی تصاویر کو نا قابل شناخت بنانے کا عمل بھی زیادہ تر پنجاب میں ہی ہو رہا ہے دیگر صوبوں میں یہ روایت موجود نہیں ہے اور گرفتار ہونے والے ملزمان کی تصاویر اصل حالت میں ہی میڈیا کو فراہم کی جاتی ہیں تو پھر پنجاب میں ایسا کیوں ہے اور اس سوال کا جواب کون دے گا ؟

کیا محکمہ پولیس اپنی تشہیر کے لیے ہی خبر میڈیا کو فراہم کرتا ہے؟ اگر ملزمان کے چہروں تک عوام کی رسائی ہو تو عادی مجرم اور آئے روز جرائم میں ملوث ہونے والے جرائم پیشہ عناصر  جب کسی دوسرے علاقے میں واردات کریں تو انہیں پہچاننے میں کم از کم عوام کو آسانی رہے۔ محکمہ پولیس کے بڑے افسران کے لیے یہ بات غور طلب ہے بصورت دیگر عوامی رائے یہی ہے کہ پولیس ملزمان اور جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ اس لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ پولیس کے اعلی' افسران اس بات پہ غور کریں کہ "میڈیا کو فراہم کی جانیوالی ملزمان کی تصاویر نا قابل شناخت کیوں؟  اس لیے عوامی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے اور عوامی آگاہی کے پیش نظر میڈیا کو ملزمان کے اصل چہروں تک رسائی دی جائے۔

اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین! 

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

:) :)) ;(( :-) =)) ;( ;-( :d :-d @-) :p :o :>) (o) [-( :-? (p) :-s (m) 8-) :-t :-b b-( :-# =p~ $-) (b) (f) x-) (k) (h) (c) cheer
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top