پاکستان کے ہر شہری پر قرض کا بوجھ بڑھتے بڑھتے پونے دو لاکھ روپے تک پہنچ گیا، یعنی ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ 175000روپے کا مقروض ہوتا ہے۔ یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ عمران خان نے کچھ چیزوں میں ترقی کی ہے کرپشن انڈیکس پہلے سے بڑھ کر 124 پر چلا گیا یعنی ترقی ہوئی پہلے پاکستانی 75 ہزار کا مقروض تھا اب ایک لاکھ 75 ہزار کا ہو گیا اس میں بھی ترقی ہوئی پہلے پاکستانی آٹا 35 کا اور چینی 50 کی اب 75 کا آٹا اور چینی 100 کی پر کلو خریدتے ہیں اس میں بھی ترقی ہوئی ادویات کی قیمتوں میں تو 500 فی صد ترقی کی دو کروڑ مزید لوگ غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے اس میں بھی ترقی ہوئی ہے مہنگائی اوپر کو گئی ہے یعنی ترقی ہوئی ہمیں بالکل میجر جنرل عبدالغفور کی طرح تبدیلی کو مثبت لینا چاہیے جب ہم مثبت انداز میں ان سب چیزوں کو دیکھیں گے تو ہمیں ترقی ہی نظر آئے گی قرضہ لیا تو خودکشی کر لوں گا ہم کفایت شعاری اپنائیں گے عوام کا پیسہ عوام پر لگائیں گے لیکن برسراقتدار آنے کے بعد عمران خان کی ساری باتیں جھوٹی نکلی اور وزیروں مشیروں کی فوج بنائی جس کا سارا بوجھ ملک اور عوام پر آیا مزید قرضے لیے گئے
وزارت خزانہ کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا کہ گذشتہ مالی سال کے اختتام پر فی کس قرضہ بڑھ کر پونے دو لاکھ روپے کی سطح تک پہنچ گیا۔ اس طرح 1 سال میں ملک کے ہر شہری پر قرض کے بوجھ میں 54901 روپے ( 46 فیصد ) کا اضافہ ہوا۔ فسکل پالیسی اسٹیٹمنٹ کے مطابق جون 2020 کے اختتام پر مجموعی سرکاری قرضہ 36.4 ٹریلین روپے تھا۔* *وزارت خزانہ نے قرض کی مجموعی رقم کو 208 ملین پاکستانیوں پر تقسیم کیا ہے۔ واضح رہے کہ جون 2018ء میں مجموعی سرکاری قرضہ 24.9 ٹریلین روپے تھا۔ وزارت خزانہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وفاقی مالیاتی خسارے کو قومی معیشت کے 4 فیصد تک نہ گھٹا کر حکومت نے ’ فسکل رسپانسیبلٹی اینڈ ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ 2005‘‘ کی خلاف ورزی کی ہے۔
وفاقی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 8.6فیصد ہے جو قانون کے تحت مقرر کردہ حد کے دگنا سے بھی زیادہ ہے۔ فسکل پالیسی اسٹیٹمنٹ کے مطابق مالی سال 2019-20 میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے جاری اخراجات 28سال میں سب سے زیادہ رہے، جب کہ معاشی حجم کی مناسبت سے ترقیاتی اخراجات پچھلے 10 کی نسبت سب سے کم رہے۔ گذشتہ مالی سال میں مجموعی اخراجات جی ڈی پی کا 23.1فیصد رہے جو 21سال میں اخراجات کی بلند ترین سطح ہے گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانے وزیراعظم ہاؤس کو لائبریری بنانے اور مہمان کو چائے کے کپ کے ساتھ 2 بسکٹ دینے والوں نے عیاشی اور حکومتی اخراجات کرنے کا 20 سالہ رکارڈ توڑ دیا پہلے وزیراعظم ہاؤس کا خرچہ 90 کروڑ تھا عمران خان کی کفایت شعاری سے بڑھ کر 250 کروڑ ہو گیا لیکن وزیراعظم کفایت شعار بھی ہے ایماندار بھی ہے بس پچھلے چور تھے جب ہر پاکستانی 75 ہزار کا مقروض تھا تو عمران خان گلا پھاڑ پھاڑ کر بتاتے تھے اب ہر پاکستانی ایک لاکھ 75 ہزار کا مقروض ہوگیا ہے تو خان صاحب ہینڈ سم اور ایماندار ہیں
پہلے عمران خان کہتے تھے ان کو شرم نہیں آتی ان کے باپ کا پیسہ ہے آج عمران خان کی حکومت میں وزیراعظم وزراء مشیروں کے اخراجات بڑھ گئے ہیں وزیر مشیر عیاشی کر رہے ہیں کہاں گئے وہ تیل اور گیس کے کنویں جن سے نوکریوں کی بارش ہوئی تھی کہاں گئی وہ شہد کی مکھیوں سے معیشت کو ٹھیک کرنا کہاں گیا وہ عوام کے حالات کو انڈا کٹا اور مرغی سے بہتر کرنا کہاں گئے وہ سال کے بارہ موسم دلکش وزیر موسمیات زرتاج گل کہتی ہیں کہ جب نیک حکمران ہوں تو بارش ہوتی ہے بالکل پاکستانی عوام پر بارش ہوئی ہے مہنگائی کی بے روزگاری کی لاقانونیت کی کرپشن کی چور بازاری کی قرضوں کے حجم کی جس ملک میں 60فی صد نوجوان آبادی ہو ۔ لوگ جفاکش اور صابر ہوں۔ جہاں سمندر۔ پہاڑوں اور ریگ زاروں میں تیل۔ سونا۔ تانبا۔ قیمتی پتھر چھپے ہوں۔ جہاں موسم سازگار ہو۔ جہاں زمین زرخیز ہو۔ وہ قوم پہلے قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے لے۔ مقروض نسلیں پیدا کرتی رہے۔ اس کی سیاسی فوجی قیادت، اقتصادی ماہرین، بینکاروں، یونیورسٹیوں کے لیے مورخ کیا الفاظ استعمال کرے گا۔ کوئی شرم ،کوئی حیا یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہوتا اس کے لئے ایک پیج پر ہونا پڑتا ہے |
---|
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں