ٖ وہ جنگ کہاں لڑی جا رہی ہے جس کیلیے قمر جاوید باجوہ صاحب نے تین سال کی ایکسٹینشن لی؟ وائس آف چکوال (VOC)

پوچھنا یہ تھاکہ وہ جنگ کہاں لڑی جا رہی ہے جس کیلیے قمر جاوید  باجوہ صاحب نے تین سال کی       
ایکسٹینشن لی؟

    سعدیہ طارق


انڈیا نے کشمیر کو حڑپ کر لیا اور ہم آدھا گھنٹہ دھوپ میں کھڑے رہے پھر اس کے بعد ایک منٹ خاموشی سے کھڑے رہے ہیں اب صرف ہارن بجاتے ہیں

پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک سوال بڑا زبان زد عام ہے کہ وہ جنگ کہاں لڑی جارہی ہے جس کے لیے  آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے ایکسٹینشن لی تھی

کچھ لوگ ایسے سوال پر سیخ پا ہو جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں یہ سوال ضرور کرنا چاہیے ۔

 آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا معاملہ وزیراعظم کے پاس گیا اور وہاں سے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا سپریم کورٹ نے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں بھیج دیا ہے 

پارلیمنٹ میں  سوال ہوا کہ آپ کو کس چیز کے لئے ایکسٹینشن چاہیے تو بتایا گیا ہے

ملک کی نازک صورت حال میں جنگ کا ماحول بنا ہوا ہے کشمیر کی صورتحال بڑی گرم ہے اور ان سب صورتحالوں کو قمر جاوید باجوہ بخوبی جانتے ہیں اس لئے لیے اس جنگی صورتحال میں قمر جاوید باجوہ کو تین سال کی مدت ملازمت میں اضافہ بہت ضروری ہے


قمر باجوہ   صاحب  کو مدت ملازمت میں تین سال کا اضافہ مل گیا۔

 اس کے بعد جنگی ماحول بھی ختم ہوگیا نازک صورتحال بھی ختم ہوگئی اور کشمیر پر بھی کوئی بات نہ ہوئی

بلکہ اب تو یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ کشمیر کی ریاستی حیثیت آئین کی دفعہ 370 انڈیا نے پاکستان سے پوچھ کر ہی ختم کی تھی۔


اب آتے ہیں اس سوال کی طرف جو سوشل میڈیا پر چل رہا ہے کہ وہ جنگ کہاں لڑی جارہی ہے جس کے لیے  قمرجاویدباجوا نے ملازمت میں آئین کے خلاف جاتے ہوئے  اضافہ لیا تھا

بہت سے لوگوں نے اس سوال کے جواب پر مختلف آراء پیش کی ہے


یوسف آفریدی کہتے ہیں ‏‎سی پیک، واپڈہ، نادرہ، ریلوے، کووڈ، کنمنٹمنٹ بورڈ وغیرہ وغیرہ کی چوکیاں فتح کر کے


سلیم خٹک کہتے ہیں ‏‎اسد علی طور کے ساتھ ابصار عالم کےساتھ

حامد میر کےساتھ

نون لیگ کے ساتھ

بلڈی سویلین کے ساتھ


چوہدری ارشد کہتے ہیں ‏‎‎جنگ اپنی ہی ملک اپنی ہی عوام سے لڑ رہے ہیں


احمد فراز صدیقی کہتے ہیں ‏‎وہ جنگ باہر کے بینکوں میں طبلچو رکھنے کے سلسلے میں لڑی جا رہی ہے کہ کیڑا وَڈا چور اے پیزے والا جزیرے والا کفیلوں والا یا اے صاحب 72سالوں میں تاریخ نے ایڈا وَڈا بے شرم نئ ویکھا ہونا جیناں اے سفید بالوں والا ہے اس لئیے ایکسٹین لئ سی تاکہ طبلچو بینکاں وِچ پہنچا سکن


زمان بلوچ  جواب می‏ں لکھتے ہیں ‎وہ انديکھی جنگ ھے تعميری سوچ اورملک کوفلاحی خوشحال رياست بنانے کی سوچ اورنظرٸيے کےخلاف۔ 

سٹيٹس کو برقرار رکھ کر طاقتور طبقہ عوام کو صرف گزارہ الاٶنس دينا چاھتا ھے کہ وہ زندہ رہ سکيں سارے وساٸل اور ملکی نظام اپنے کنٹرول ميں رکھنا چاھتا ھے کہہ عوام اسکے مرھون منت رھيں آزادی سےناسوچيں


حسن علی ہاشمی کہتے ہیں پارلیمنٹ کے محاز پر

دانش ملک کہتے ہیں سوشل میڈیا پر

ایم صادق ذوالقرنین لکھتے ہیں 

‏‎وہ جنگ تو ماشاءاللہ جیت بھی لی۔ ڈی ایچ اے ملتان فتح کیا جا چکا ہے۔

آصف سلیم کہتے ہیں کہ عوام سے ان کی بنیادی ضروریات اٹا چینی ادویات بجلی پٹرول گیس چھین کر جنگ لڑی جارہی ہے

ارشد گل کہتے ہیں کہ جنگ ابھی لڑی نہیں گئی عوام کو آٹا چینی پٹرول کی لائنوں  میں کھڑا کرکے اس کی تیاری کروائی جا رہی ہے

علی خان کہتے ہیں کہ اپنی مرضی کے جج لگوا کر عدلیہ میں اپنی مرضی کے فیصلے کروا کر لوگوں کو نااہل کروا کر سزائیں دلوا کر جنگ لڑی جا رہی ہے 


بہت سے لوگوں نے چھوٹے چھوٹے جواب بھی دیے جن میں کس نے کہا کہ جی ایچ کیو میں لڑی جا رہی ہے

 کسی نے کہا کہ وزیراعظم ہاؤس میں لڑی جا رہی ہے

 کسی نے کہا کہ وزیراعظم ہاؤس فلور نمبر چار پر لڑی جارہی ہے

 کسی نے کہا کہ بنی گالہ میں لڑی جا رہی ہے

ویسے عوام اس بات میں تذبذب کا شکار ہے کہ پاکستان کا سب سے طاقتور ترین شخص کیسے  اپنی نوکری میں اضافہ کے لئے لیے اپنی مدت ملازمت میں اضافہ حاصل کر لیتا ہے


اب لوگ سوچ رہے ہیں کہ جھوٹ کے پیچھے  پرویز مشرف اور اشفاق پرویز کیانی کی طرح  سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ڈالر بھرنا تھا یا جزیرے بنانا تھا یا عاصم سلیم باجوہ کی طرح پوری دنیا میں بزنس بنانا تھا 


0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top