ملک نذر حسین عاصم
03335253836
یہ میرے سوہنے رب کی تقسیم ہے کہ کسی کے گھوڑے سیب اور مربے کھارہے ہیں اور کسی غریب کے بچے کچرے کے ڈھیر سے روٹی کے ٹکڑے تلاش کررہے ہیں۔چوہدری صاحب کے کتے سیر ہوکر گوشت کھاتے ہیں تو کسی کو صرف عیدالاضحیٰ پر گوشت کھانے کو ملتا ہے مزدور کے بچے نائلون کی ٹوٹی چپلوں میں دسمبر گذاردیتے ہیں کسی ساہوکار کے اعلیٰ برانڈ کے بوٹ لاکھوں میں آتے ہیں زیب تن لباس فلاں ملک سے آتا ہے فلاں ملک میں سلائی ہوتا ہے۔
ہیں تو سبھی ایک آدم کی اولاد۔ قبریں سب کی ایک جیسی ہوتی ہیں گھر ایک جیسے نہیں ہوتے نصیب کا لکھا سب کا الگ الگ ہے کوئی منہ میں سونے کی چمچ لیکر پیدا ہوتا ہے تو کوئی جھونپڑی میں پیدا ہوکر وقت کی نامور شخصیت بن جاتا ہے ہاتھ کی لکیریں ساتھ دیں تو سرخاب کے پر لگ جاتے ہیں۔
موجودہ معاشرہ الجھی گتھی کی طرح یا دریا کے منجدھار کیطرح ہوتا جارہاہے کوئی سونا پھانک رہا ہے تو کوئی بیمار ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے ہم میں خیرخواہی اور ہمدردی کا عنصر ناپید ہوتا جارہاہے ہم کسی وڈیرے کے کتے کو نہلانے میں تو فخر محسوس کرنے لگتے ہیں لیکن کسی مجبور بےکس کی صدا پر کان نہیں دھرتے۔ سارا معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو چکا ہے کسی کٹیا میں پیدا ہونیوالا باصلاحیت بچہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے کیونکہ اسکے پاس وسائل نہیں۔ ہزاروں بیٹیوں کے مہندی رچانے کے خواب صرف اسلئے چکناچور ہوجاتے ہیں کہ انکے پاس جہیز نہیں۔انکا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے اسلام نے سب کو برابر ہونے کادرجہ دیا ہے کہ ہم سب آدم کی اولاد ہیں پھر یہ اونچ نیچ چہ معنی دارد۔۔۔ ذرا سوچئیے ہم کسطرف جارہے ہیں؟ خدا ایک رسول ایک کعبہ ایک' پھر بھی ہم چوہدری'ملک اور راجہ کے بٹوارے کررہے ہیں بلال حبشی کو دیکھئے پیدائشی غلام' لیکن اسلام نے کتنا درجہ اور مقام دیا ۔ اسلئے کہ برتری کا معیار تو تقوی ہے گورا رنگ نہیں جاہ و حشم نہیں خون قبیلہ نہیں۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہمیں دنیاوی عیاشیوں میں منہمک ہوکر کچھ بھی یاد نہیں۔ ہم ہرسال حج پرجاتے ہیں لیکن ہمارے محلے میں کئی گھروں میں فاقہ ہوتا ہے بیمار دوائی خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے عالم جاودانی کو سدھار جاتے ہیں
غربت بڑھ رہی ہے پیسوں صرف چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے خدارا اس پیسے کو سانپ اور بچھو مت بنائیے۔اسے انسانیت کی بہتری فلاح اور بہبود کے لیے خرچ کیجئیے کہ اسکا درست مصرف یہ ہی ہے۔میں نے کسی بازار کسی چوک میں بیٹھے درجنوں وہ مزدور دیکھے ہیں جو تلاش معاش کیلئے گجردم بازار کا رخ کرتے ہیں کہ شاید آج ہماری دیہاڑی لگ جائے ہم بھی روٹی کا نوالہ لیکر گھر جائیں لیکن بہت سے مزدور خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں انکے بچے بھی باپ کا رستہ دیکھ رہے ہوتے ہیں انکے بھی کچھ ارمان ہیں جو ادھورے رہ جاتے ہیں معمر بزرگوں معذوروں بیماروں یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی ڈھارس بندھائیے انکا سہارا بنئیے ۔غریبوں کی خدمت جنت کا ٹکٹ ہے اللہ کی راہ میں یا اللہ کے بندوں پر خرچ کرنے سے کبھی رزق میں کمی نہیں ہوتی بلکہ ایک نئے راستے سے رزق برکت بنکر آپکے رزق میں شامل ہوجاتا ہے اگر کوئی کمپنی اپنے ایک سائن بورڈ کی قیمت۔کوئی تاجر روزانہ آمدن کا دو فیصد۔ عہدیداران مہینے میں صرف دو دن کی تنخواہ۔صرف اپنے محلے کے مستحقین پر خرچ کریں تو معاشرہ جنت نظیر بن سکتا ہے آج جبکہ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے ایسے میں ہم سب پر لازم ہوچکا ہے کہ ہم بساط بھر اپنے غریب بھائیوں کا ہاتھ بٹائیں تاکہ کوئی غربت کی وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور نہ ہو۔
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.