ملک نذر حسین عاصم
03335253836
انسان ایک غافل منصوبہ ساز ہے جس نے کبھی اپنی آخرت کے حوالے سے منصوبہ بندی نہیں کی۔ وہ تو صرف دنیاداری کے فنون کا ماہر ہے ہمیشہ اپنے فائدے کی باتیں سوچتا ہے کسی کا نقصان ہورہاہے تو اپنی بلا سے' اسے ضرور فائدہ ہونا چاہئیے پھر یہ انسان کسی کا گلا کاٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتا' حلال اور حرام میں کوئی تخصیص باقی نہیں رہتی۔مال حرام کی آمد سے گھر کی برکت اڑ جاتی ہے بچوں کے پیٹ میں لقمہ حرام داخل ہوتے ہی توڑ پھوڑ شروع کر دیتا ہے لیکن بعض اوقات مال حرام ہماری گھٹی میں شامل ہوجاتا ہے محدود وسائل کے باوجود گھر میں انواع و اقسام کی اشیا کی ریل پیل ' دنیاوی سٹیٹس' کار کوٹھی' اچھے بھلے گھر کو رشوت کا ہیڈ کوارٹر بنا دیتا ہے لیکن جب کوئی چیز منہ لگ جائے تو اسے چھوڑنا ناممکن ہوجاتا ہے پھر جھوٹ نے ہمارے تمام اعمال داغدار کردیئے ہیں۔ماں سے جھوٹ، باپ سے جھوٹ، گھر والوں سے جھوٹ، اقربا خویش سے جھوٹ ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں اور جھوٹ سے تمام برائیوں کے بچے پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہم خودجھوٹ بول کر اولاد سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہم سے سچ بولے گویا ایسا ہی ہے کہ جیسے کیکر کا بیج بو کر گندم کی توقع رکھی جائے۔ہم جھوٹ بڑی ڈھٹائی سے بولتے ہیں کہ سچ کا گماں ہوتا ہے لیکن ہم چھوٹی چھوٹی باتوں سے پکڑے جاتے ہیں بڑے کام کیلئے تو ہم نے باقاعدہ پلاننگ کی ہوتی ہے لیکن جج ہمیشہ ایک چھوٹے سے نکتے سے مجرم کو پکڑ لیتا ہے۔ ہم ماں، بیٹی اور بہن کو جائیداد میں سے حصہ نہیں دیتے' رشتے داروں کے حقوق غصب کرکے بھی اپنی مہارت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم مال جمع کرنے کی ہوس میں مبتلا ہیں ہم قبر کیلئے سانپ اور بچھو تیار کررہے ہیں دوزخ کا ایندھن بن رہے ہیں جن کیلئے ہم سارے زمانے سے ٹھگی کررہے ہیں۔ پتہ نہیں وہ قبر پر فاتحہ پڑھنے بھی آئیں گے یا نہیں؟ حسد ہم میں ہے بغض کئے بغیر ہم رہ نہیں سکتے۔شکوک و شبہات کی عمارتیں تعمیر کرکے دوسروں کی زندگی میں زہر بھر رہے ہیں۔ الزام تراشیاں کینہ پروری کدورت اور نفرت جیسی چیزیں ہمارے پاس بہت ہیں ہم دوسروں کو خوش دیکھ کر جیلس ہوتے ہیں کسی کا پیار اتفاق دیکھکر سیاست کرتے ہیں ہم توڑ پھوڑ کے ماہر ہیں ہم رشتوں کے تقدس کو پامال کرتے ہیں اگر ہم رات کو سوتے وقت اپنا محاسبہ کریں تو پتہ چلے کہ آج کے دن میں ہم نے نیکی کا کوئی کام نہیں کیا۔سارا دن ہم دوسروں کی برائیوں کی جمع تفریق کرتے ہیں اپنے علاوہ سب کو گھٹیا اور کمتر سمجھتے ہیں دنیاوی تمام عیوب ہم میں راسخ ہوچکے ہیں لیکن ہم اسی کشتی پر سفر کرکے لطف اندوز ہورہے ہیں نہ عاقبت کی فکر ہے نہ نسلوں کی تعمیر کی' بس ہر ایک کو چونا لگانا ہمارا فن ہے کیا یہ ہی زندگی ہے۔؟
ہرگز نہیں۔ اے انسان ! آنکھیں کھول راہ راست پر آجا۔یہ زندگی چند روزہ اور عارضی ہے سب کچھ یہاں دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ فکر کر اس دن کی جب بیٹا باپ کے اور باپ بیٹے کے کام بھی نہ آسکے گا۔ نفسانفسی کا عالم ہوگا اسوقت صرف جو چیز کام آئے گی وہ ہے صرف نیکی۔اگر آپ نے حقوق العباد کا پاس کیا ہوگا کسی بیمار کا خیال رکھا ہوگا بھوکے کو کھانا کھلایا ہوگا اپنے پرائے چھوٹے بڑے سے خوش اخلاقی سے پیش آکر انکے دکھوں کا مداوا کیا ہوگا بدلے کی توقع کے بغیر کسی کا حق پر ساتھ دیا ہوگا ماں باپ بہن بھائی سبھی کا احترام اور انکے حقوق کا خیال رکھا ہوگا تو روز قیامت آسانی ہوگی ورنہ سرخ آگ میں جھونک دیا جائے گا جہاں کوئی فریاد نہ سنی جائے گی۔
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.