ٖ عجیب منطق وائس آف چکوال (VOC)
ہیڈ لائن

2:26 PM استاد کا احترام

 

ملک نذر حسین عاصم

03335253836


ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں امیر ترین افراد کی تعداد دس لاکھ ہے جو مال بنانے اور راتوں رات امیر ہونے کے خواب کو حقیقت کا رنگ دینے کے ماہر ہیں کبھی تو ان میں سے کوئی گوادر پر موجود بنجر زمینوں  کو کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر سونے کے بھاؤ فروخت کرنے لگتا ہے۔ کبھی کوئی پورے ملک سے چینی خرید کر گوداموں میں سٹاک کرلیتاہے اور جب چینی کی مصنوعی قلت پیدا ہوتی ہے تو منہ مانگی قیمت پر فروخت کر کے اربوں روپے کما لیتا ہے۔ ان ہی میں سے کوئی ساری گندم خرید کر آٹے کا بحران پیدا کردیتا ہے تو کوئی نئے  پیاز مارکیٹ میں آتے ہی اپنے ایجنٹ قریہ بہ قریہ پھیلا کر سارے پیاز خرید لیتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں پیاز کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پیاز کے ریٹ آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں یہ شاطر منہ مانگی قیمت پر پیاز مارکیٹ میں فروخت کر کے سو گنا منافع حاصل کرلیتا ہے۔ بعض عناصر ہمارا ملک بحرانوں کا ملک بنارہے ہیں کبھی پٹرول کا بحران، کبھی چینی کا بحران، کبھی آٹے کا بحران ۔یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے آپ پچاس سال پہلے کے اخبارات کی ورق گردانی کر دیکھئیے بحران کی خبریں تب بھی شہ سرخیوں کے ساتھ منہ چڑاتی نظر آئیں گی ہر عہد حکومت میں یہ منہ میں سونے کی چمچ لیکر پیدا ہونیوالے لوگ اپنی شعبدہ بازیوں کے ساتھ میدان میں کھڑے نظر آتے ہیں جنہوں نے ہر دور میں اشیا کی قلت پیدا کرکے غریبوں کا خون چوسا ہے لیکن یہ لوگ ہمیشہ قانون کی آنکھ سے بچ نکلتے ہیں کیونکہ یہ میرے آپکے اس وزیر کے فلاں سفیر کے  "پیارے"  ہیں۔ ان پر قانون کی آگ اثر نہیں کرپاتی۔

بظاہر دکھاوے کیلئے ہم ان پر لال پیلے ہوکر گرم سرد بیان جھاڑتے ہیں جنکی طاقت پانی کے بلبلوں جتنی ہوتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ستر سال گذرنے کے باوجود ہم اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوسکے ۔ہمارے میر جعفر ہمیں اگنے نہیں دیتےاور مارآستین کیلئے ہم آج تک کوئی مجرب نسخہ تیار نہیں کرسکے۔

بنگلہ دیش میں چاول کے نرخ میں اضافہ ہوا تو حکومت نے اعلان کیا کہ کوئی چاول نہیں خریدے گا۔ عوام نے حکومتی اعلان کی پاسداری کرتے ہوئے چاول کا مکمل بائیکاٹ کیا نتیجتاً چاول کے ریٹ پہلے سے بھی ارزاں ہوگئے۔ امریکہ اورچائنا میں بھی مختلف اشیا کی قیمتوں میں اضافے پر ان اشیا کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا تو ہر چیز کے ریٹ معمول پر آگئے لیکن ہم اور طرح کی مخلوق ہیں ہم مہنگائی کا واویلا بھی کرتے ہیں غربت کا رونا بھی روتے ہیں لیکن پچیس نومبر کو جب پٹرول پمپ والوں نے ہڑتال کا اعلان کیا تو مہینے کے آخری دن ہونے کے باوجود پٹرول خریدنے کے ہم لمبی قطاروں میں موجود تھے اور ہرشخص نے پٹرول سے ٹینکی فل کروائی۔ یہ پچیس تاریخ کو اتنے سارے پیسے سب کے پاس کہاں سے آگئے۔چینی مہنگی ہوئی تو ہم نے بوریوں کے حساب سے خرید لی ۔یہاں عجیب منطق ہے جو چیز زیادہ مہنگی ہوتی ہے ہم اسے فوراً خریدلیتے ہیں۔ موٹر سائیکلوں کی قیمت میں اضافہ ہوا تو صرف پندرہ دن کی خریداروں کی تعداد دیکھکر عقل دنگ رہ جاتی ہے جتنے موٹر سائیکل دو ماہ میں فروخت ہوتے تھے وہ ہدف پندرہ دن میں مکمل ہوگیا۔اپنی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے ذمہ دار ہم خود ہیں ہم جو کچھ زباں سے کہتے ہیں ہرگز ویسا نہیں کرتے۔

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

:) :)) ;(( :-) =)) ;( ;-( :d :-d @-) :p :o :>) (o) [-( :-? (p) :-s (m) 8-) :-t :-b b-( :-# =p~ $-) (b) (f) x-) (k) (h) (c) cheer
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top