ٖ روپ بہروپ وائس آف چکوال (VOC)
ہیڈ لائن

2:26 PM استاد کا احترام


ملک نذر حسین عاصم

03335253836


میں اکثر اس نوجوان کو دیکھتا جو کھٹارہ موٹر سائیکل پر پلاسٹک کے برتن لادے گلی گلی آواز دیتا کہ "لوہا دیکر پلاسٹک کے برتن کے لو" محلے کی کچھ خواتین گھر میں لوہے کی موٹی پھوٹی اشیا اور گتے کے کاٹن جمع کرکے رکھتیں اور اس سے پلاسٹک کی بنی ہوئی چیزیں لے لیتی تھیں وہ جون جولائی کی تپتی دوپہر میں بھی آوازے لگاتا اور کچھ لوگ اسکے منتظر ہوتے۔میں سوچتا تھا اس کا کام کتنا مشکل ہے سارا دن بھوک پیاس کی پرواہ کئے بغیر یہ نوجوان بچوں کی روزی روٹی کیلئے کوشاں ہے کبھی خیال آتا کہ دن بھر کی مشقت کے بعد یہ کتنا کما لیتا ہوگا آخر اسکے اپنے  بچے ماں باپ بیماری دوائی مکان کا کرایہ بجلی کا بل گیس کا سلنڈر آٹا دال سبزی سارے اخراجات پلاسٹک کے یہ چند برتن فروخت کرکے ہرگز ممکن نہیں۔ ایسے لوگوں کیلئے دوائی مفت ہونی چاہیئے سکول کی فیس معاف ہونی چاہیئے اور آسودہ حال لوگوں کو انکا خیال بھی رکھنا چاہیئے مجھے اکثر ایسے غریب لوگوں کی فکر نڈھال کر دیتی ہے جب آٹا خریدنا محال ہو جائے جب بیمار دوائی کے انتظار میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دنیا سے روٹھ جائے تو ایسے لوگوں کا درد ہمیں اپنے سینے میں محسوس ہونے لگتا ہے بڑے بڑے سرمایہ داروں کی کوٹھیاں منہ چڑانے لگتی ہیں کہ أپکی کوٹھیاں پیٹ پر پتھر باندھ کر سونے والوں کے کس کام کی۔ میں انہی خیالات کے تلاطم میں غوطہ زن دفتر سے گھر کی طرف جارہا تھا کہ سڑک کے کنارے ایک کار آکر رکی میں نے دیکھا تو وہی پلاسٹک کے برتن لیکر پھیری والا اجلا لباس پہنے ڈرائیونگ سیٹ سے اترا۔میں ورطہ حیرت میں پڑ گیا کہ کیا یہ وہی پھیری والا ہے  یا کوئی اور۔ اگر شاندار لباس میں ملبوس یہ وہی شخص ہے تو کار کس کی ہے۔؟ مجھے تجسس ہوا اور میں اسکے بارے میں تحقیق کی۔ تحقیق نے میرے چھکے چھڑا دیئے حیران کن انکشافات۔ روپ بہروپ۔دوہرا تضاد۔ وہ پھیری والا خود اس خوبصورت کار کا مالک تھا یہ ہی نہیں اس کا گھر نہ صرف ذاتی بلکہ ہمارے گھر سے عمدہ تھا مگر یہ سب کیسے ؟.سوچوں کے راکٹ مجھ پر حملہ کرنے لگے۔ رازوں کی قلعی کھلتی گئی وہ ویسا قطعاً نہ تھا جیسا ہم صبح شام اسے دیکھا کرتے تھے اور اس پر ترس کھاتے تھے وہ ایک خطرناک گروپ کا آلہ کار تھا یہ دن کو پھیری والا بنکر ہر جگہ جاتا لوگوں کے حالات معلوم کرتا ان سے گپ شپ لگاتا اور پھر ان لوگوں کے گھروں کے فوٹونقشے  اور ویڈیوز ان جرائم پیشہ افراد تک پہنچاتا جو رات کی تاریکی میں لوگوں کے گھروں کا صفایا کرتے ڈکیتیاں کرتے موبائل اور موٹر سائیکل چھینتے اور اس پھیری والے کو باقاعدہ حصہ ملتا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی لوگوں سے پیسے لیکر دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچاتے تھے انکے جرائم کی داستان طویل تھی یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ پھیری والا ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر  ہماری جڑیں کاٹ رہا ہے ہم تو اسے غریب سمجھ کر اسکے بارے میں سوچ کر جان ہلکان کررہے تھے 

یاد رکھئیے سب کچھ ویسا ہی نہیں ہوتا جیسا آپ سوچتے ہیں ہم نے محلے کی گلیوں میں  جوتیاں چٹخاتے اجنبی لوگوں سے کبھی نہیں پوچھا کہ جناب کون اور کہاں سے تشریف لائے اور یہاں قدم رنجا فرمانے کی زحمت کیسے گوارا کی؟ کوئی انجان ایک سال سے محلے میں رہ رہا ہو تب بھی ہم نے کبھی اسکا شناختی کارڈ چیک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔کیا اجنبی سے شناخت پریڈ کی زمہ داری آپکی یا ہماری نہیں ہے؟  ہم تعارف اور تحقیق میں عار سمجھتے ہیں اور جب کوئی ہمیں " ہاتھ لگا کر" نو دو گیارہ ہوجاتا ہے تو ہم ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔


یاد رکھئیے بہت سے معصوم چہرے اندر سے بہت گھناؤنے ہوتے ہیں جرائم پیشہ لوگ مختلف علاقوں میں کرائے کا مکان لیکر واردات ڈالتے ہیں بعض اوقات ہماری معصومیت ہمیں دھوکا دے جاتی ہے موجودہ حالات کے تناظر میں ضروری ہے کہ ہم گردوپیش پر نظر رکھیں تاکہ جرائم کی شرح میں کمی آسکے۔

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

:) :)) ;(( :-) =)) ;( ;-( :d :-d @-) :p :o :>) (o) [-( :-? (p) :-s (m) 8-) :-t :-b b-( :-# =p~ $-) (b) (f) x-) (k) (h) (c) cheer
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top