ٖ عرب دنیا میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات میں کتنا اضافہ ہو چکا؟ وائس آف چکوال (VOC)
ہیڈ لائن

2:26 PM استاد کا احترام

 

عرب دنیا میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات میں کتنا اضافہ ہو چکا؟ سعودی عرب نے بے بنیاد الزامات لگانے اور افواہیں پھیلانے والوں کو خبردار کر دیا ہے۔


انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق سعودی حکام نے خبردار کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر بے بنیاد افواہیں پھیلانے والے کو پانچ سال جیل کی سزا اور بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔ یہ انتباہ ریاض میں ایک کنسرٹ کو منسوخ کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس کنسرٹ کے بعد آن لائن رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ جب خواتین اپنے گھر واپس جا رہی تھیں تو انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا تھا۔ کچھ خواتین نے بی بی سی کو بتایا کہ جو کچھ کنسرٹ کے بعد ہوا وہ اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر خوفزدہ ہیں۔ سعودی اینٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے سربراہ اپنے کئی ٹویٹس میں ان کے دعووں کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ یہ سعودی عرب میں ثقافتی اور سماجی تصادم میں ایک تازہ ترین پیشرفت ہے۔ سعودی عرب ایک انتہائی قدامت پسند معاشرہ رہا ہے اور اب یہاں کوشش کی جا رہی ہے کہ اسے ایک ایسا معاشرہ بنایا جائے جو بڑے پیمانے پر تفریحی پروگراموں کی میزبانی کرے۔ کے پاپ اور سٹرے کڈز کا کنسرٹ جس کا بہت زیادہ انتظار تھا 14 جنوری کی شام کو تیز ہواں کے باعث آخری لمحات پر منسوخ کر دیا گیا تھا۔ ہجوم کی وجہ سے مایوس شائقین کو سعودی دارالحکومت کے مضافات میں پنڈال سے گھر کا راستہ تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑی۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر رپورٹس آنے لگیں کہ کنسرٹ سے لڑکیاں لاپتہ ہو گئی ہیں اور اس کے علاوہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کی خبریں بھی آئیں۔ کم از کم انٹرنیٹ پر تو خوف و ہراس نظر آ رہا تھا۔ اس کے بعد ہیش ٹیگ نظر آنے لگے جس سے خوف کا احساس مزید بڑھ گیا۔ حقیقت ابھی تک واضح نہیں ہے۔


سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے سربراہ ترکی الشیخ نے بعد ازاں متعدد ٹویٹس میں ہراساں کیے جانے کی اطلاعات کا مذاق اڑایا کہ یہ من گھڑت کہانیاں ہیں۔ کئی آن لائن اکانٹس سے تیزی سے میمز بننے لگیں جن میں ہراساں کیے جانے کی یا لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کی خبروں کا مذاق اڑایا گیا اور اس طرح کے الزامات لگانے والوں اور انھیں پوسٹ کرنے والوں کو جھوٹا اور سعودی عرب کو بدنام کرنے والے کہا گیا لیکن کئی خواتین جنھوں نے پہلے ملک میں تفریحی پروگراموں میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے بارے میں اپنے خدشات کے بارے میں بی بی سی سے بات کی تھی، نے اصرار کیا کہ جو کچھ رپورٹ کیا گیا تھا اس میں سے کچھ واقعات سچ بھی ہیں۔


وہاں موجودگی کا دعوی کرنے والے بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور منتظمین نے مشکل حالات میں بھی اچھا انتظام کیا تھا۔ ان کی بات کو شاید اس حقیقت سے بھی تقویت ملتی ہے کہ جیسے جیسے شام ڈھلنے لگی تھی، کچھ مردوں کی تصاویر بھی پوسٹ ہونا شروع ہو گئی تھیں جو خواتین کو ہراساں کر رہے تھے۔ لیکن ان میں سے کچھ تصاویر تو بے ترتیبی سے سوشل میڈیا اکانٹس سے اٹھائی گئی تھیں یا پھر وہ مشہور شخصیات کے اکانٹس سے لی گئی تھیں۔ اس ٹرولنگ نے متعدد خواتین کے اس دعوے کو کمزور کر دیا کہ ایسے واقعات ہوئے تھے۔


0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

:) :)) ;(( :-) =)) ;( ;-( :d :-d @-) :p :o :>) (o) [-( :-? (p) :-s (m) 8-) :-t :-b b-( :-# =p~ $-) (b) (f) x-) (k) (h) (c) cheer
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top