تحریر : ملک محمد معظم علوی
خلافت عباسیہ کے عہد میں خصوصاً عربی زبان میں کہانی نویسی اور افسانہ نویسی اپنے عروج پر پہنچی اور اس دور کا سب سے عظیم ادبی شہ پارہ 'الف لیلہ' تھا۔ فارس کی شہزادی 'شہرزاد' سے منسوب یہ کہانیاں شاید ہی دنیا کی کسی بڑی زبان کے اندر ترجمہ نہ ہوئی ہوں۔ ان کہانیوں کے کرداروں نے ایسی لافانی شہرت حاصل کی کہ آج شاید ہی کوئی ان کے ناموں سے ناواقف ہو۔ مغرب و مشرق میں آج الہ دین، سندباد اور علی بابا کو کون نہیں جانتا؟ یہ سب الف لیلوی داستانوں کے کردار تھے۔ مغرب میں تو ان کہانیوں نے شہرت سمیٹی ہی لیکن شمال میں روس کے علاقوں تک میں ان کہانیوں سے متاثرہ لوک داستانیں وجود میں آئیں۔ جس کا ہلکا سا اظہار روسی مصور وکتر ویسنت سوف کے اس شاہکار فن پارے سے ہوتا ہے۔ جنہوں نے اڑن قالین پر زار کو سوار کر دیا۔ عالمی ادب پر مسلم ادب کے اثرات کو ظاہر کرتے اس فن پارے میں زارِ روس آئیون کو آتشی پرندہ پکڑنے کے بعد اڑن قالین پر سوار شہر واپس آتے دکھایا جا رہا ہے۔
اقبال فیروز ایک اچھے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے لکھاری بھی ہیں۔ 2014 کی ایک شام جہلم روڑ پر واقع ایل ایف سی ہوٹل میں انکے پہلا ناول " پس سلاسل" کی تقریب رونمائی میں ملاقات ہوئی۔ تقریب کافی احبابِ علم و عرفان آئے ہوئے تھے جو اپنے اپنے اپنے الفاظ کا جادو بکھیرتے ہوئے اقبال فیروز اور انکے ناول پر تعریف کر رہے تھے۔ ہم کسی کے بارے الفاظ رسما ادا کرتے ہیں یا پھر واقعی تعریف ہوتی ہے اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا لیکن جو تحریریں قابل ستائش ہوتی ہیں وہ چاہیے کہیں سے بھی آئیں انکی تعریف کرنے کا دل کرتا ہے۔ 3 جنوری 2022 کے دن میں سید عاطف کاظمی کے ہمراہ اقبال فیروز کے آفس میں دوبارہ وارد ہوا تو انہوں نے اپنا دوسرا ناول " ناہموار زمین " بطور تبصرہ و مطالعہ دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ "ناہموار زمین " ایک ناول سے زیادہ کسی حد تک آب بیتی ہے وہ کہانی جس میں کچھ کرداروں کے نام تبدیل کرکے ایک خوبصورت کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔
دفتر میں بیٹھے بیٹھے گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا تو اقبال فیروز کہنے لگے ان کے لیے ہر لمحہ موت ہے، جو سفر نہیں کرتے، جو مطالعہ نہیں کرتے، جو اپنی آنکھوں کو استعمال کرنا نہیں جانتے۔ مطالعے سے دوری ہمیں فرائض اور حقوق کے حوالے سے بھی نقصان دیتی ہے کہ جب تک علم نہیں ہوگا کس طرح سے ذمہ داری ادا کی جا سکتی ہے۔
انکی اسی بات کے تناظر میں مجھے ایک واقعی یاد آگیا۔ " ناہموار زمین" ناول لینے سے کچھ دن پہلے میں سید عاطف کاظمی کے ہمراہ اقبال لائبریری گیا اور وہاں عاطف کاظمی نے اپنا ناول " پکھی واس" لائبریری کو عطیہ کیا لائبریرین سہیل صاحب نے لائبریری کا وزٹ کرانے سے پہلے مین گیٹ کو تالا لگایا اور ہم بالائی منزل پر موجود کتب کے ذخیرہ کو دیکھنے چلے گئے۔ واپسی پر سہیل صاحب سے پوچھا کہ تالہ کیوں لگایا تو کہنے لگے کہ کتابیں ، اخبارات یا رسائل کہیں چوری نہ ہو جائیں۔ کیونکہ میں اس لائبریری میں اکیلا ڈیوٹی دیتا ہوں باقی لوگ ریٹائرڈ ہو گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے میرے سعودیہ جانے سے قبل آج سے اڑھائی سال جب بھی اپنے احباب کے ہمراہ لائبریری کا وزٹ کرتا تھا کافی رونق میلہ دیکھا لیکن اب نہ وہ رونق میلہ ہے نہ وہ لوگ۔ کتابیں تو موجود ہیں لیکن مطالعہ کرنے والے وقت کی دھول میں کہیں کھو گئے ہیں ڈیجیٹل دنیا میں ہر چیز ہی ڈیجیٹل ہو گئی ہے۔ لیکن کتاب کا کوئی نعم البدل نہیں لائبریری میں اسٹاف کو نہ ہونا بھی ہمارے ڈی سی او صاحب کی عدم توجہی ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔
تحریروں میں مزاح پیدا کرنا ایک مشکل کام ہے۔ میں اکثر ناول اور افسانے پڑھتے ہوئے اکتا جاتا ہوں۔ جو چیزیں افسانوی ہوں حقیقت کے نزدیک نہ ہوں تو ان میں موجود کشش ختم ہو جاتی ہے " پس سلاسل " اور " ناہموار زمین" میں اقبال فیروز نے جس انداز میں مزاح کے عنصر کو شامل کیا ہے یہ خصوصیت بہت کم لکھاریوں کے حصے میں آتی ہے۔
ناہموار زمین کو ہموار بنانا اور قابل کاشت بنانا ایک ماہر انسان ہی کرسکتا ہے " ناہموار زمین" اقبال فیروز ایک ایسی ادبی کاشت ہے جو کہ چکوال کے ادب میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے گی۔ کتاب میں موجود کسی واقع کا ذکر کروں تو بات نا مکمل ہے۔
محمد خان اور اس کے دوست اپنے گاؤں سے بھاگ کر فوج میں بھرتی جہلم کی چھاؤنی میں پہیچ گئے جہاں انکی ملاقات حوالدار صوبہ خان سے ہوئی ، حوالدار صوبہ خان نے اس پوچھا بھرتی ہونے آئے ہو تو تینوں کا جواب تھا ہاں ۔ حوالدار کو فی کس بھرتی کے حساب سے 5 ، 5 روپے ملنے تھے جو کہ اس کی دو ماہ کے تنخواہ کے برابر تھی۔ صبح صوبہ خان نے انگریز میجر کو سیلوٹ کیا اور انہیں اس کے سامنے کھڑا کر دیا۔ " بھرتی ہونا مانگٹا" ؟ میجر نے ایک ایک کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا اور پنسل کے اشارے سے خانے کا نام پوچھا۔ "محمد خان" ، گاؤں کا نام ، بس کرو ٹم بولو ٹو " محمد خان ولد " ٹم بھی محمد خان ویری انٹرسٹنگ ، ٹم بولو نمبر تھری " محمد خان" ۔۔۔۔۔ او یو ایڈیٹ حوالدار ، کون لوگ پکڑ کر میرے سامنے کھڑا کیا جھوٹ بولتا ہے سب لوگ میرے ساتھ جوک کرتا ہے۔ انگریز میجر نے میز پر رکھا اپنا رولر اٹھا کر ہوا میں لہرایا اور وہ تینوں باہر بھاگ گئے۔ صوبہ خان " تم سب کنجر ہو ، بدمعاش ہو میرا تم کورٹ مارشل کروانے والے تھے تم نے ایسی حرکت کیوں کی"؟
"چاچا ہم نے کیا کیا ہے ہم تینوں کے نام ایک ہی تھے ہم نے کوئی جھوٹ نہیں بولا " خان وضاحت پیش کرتے ہوئے رو پڑا۔
دوران مطالعہ میں جب اس مقام پر پہنچا تو اس واقعہ کو پڑھ کر بہت زور زور ہنسا۔ گوکہ پورا واقعہ نقل کرنے کی گنجائش نہیں لیکن اس کے چیدہ چیدہ نکات کر پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ واقعہ کیسا دلچسپ ہو گا۔
میرے نانا ملک سلطان محمد خود بھی ایک فوجی تھے اور دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر مصروف جنگ تھے۔ جنگی قیدی بھی رہے پاکستان بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اکثر اپنی جنگی کہانیاں سنا کر ہمارے دلوں کو گرماتے اور ملک خدادا پاکستان کی ایسی ایسی جہتیں بیان کرتے کہ کوئی بڑے سے بڑا مفکر اور فلسفی بھی اس دور میں بیان نہیں کر سکتا یقیناً یہ بزرگ ہمارے لئے ایک نعمت تھے جو وقت کی دھول میں کہیں کھو گئے ہیں اور ہم اس وراثت کے امین ہیں۔
”جس نے یوسف ؑ کے حُسن کو نہیں دیکھا اُسے کبھی اندازہ نہیں ہو سکتا کہ یعقوب ؑ کے دل پر کیا بیتی! جس نے کبھی عشق کی چنگاری سینے میں سلگا کر رات نہ گزاری ہو اسے کیا خبر کے جگر کا پارہ پارہ ہونا کیا ہے! بعینہ ہی پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جن جن کے پیارے ان سے جدا ہوئے اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں۔
بہرکیف " اقبال فیروز کی ناہموار زمین" اب مارکیٹ میں آ گئی ہے اور قارئین کی دسترس میں ہے وہ یقیناً اس ناول کو پڑھ کر محظوظ ہوں گے جس میں تاریخ کے ساتھ ساتھ مزاح بھی ہے۔
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں