تحریر : ملک محمد معظم علوی
مشہور فلسفی خلیل جبران نے ایک لڑکی سے سوال کیا
جو اس وقت پینٹنگ کرنے میں مصروف تھی۔"اس کائنات کی صرف سات لفظوں میں تعریف کرو!"
لڑکی نے جواب دیا۔ "خدا، محبت، امن، زندگی اور زمین" ۔۔۔ یہ کہہ کر لڑکی خاموش ھو گئی۔خلیل جبران نے حیران ھو کر کہا."دوسرے دو الفاظ"۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تو اس نے کہا کہ "دوسرے دو الفاظ "تم" اور "میں" ھیں، کیونکہ اگر یہ دو الفاظ نہ ھوں تو باقی کے پانچ الفاظ کی معنوی حیثیت کچھ نہیں ھو گی"۔
حال ہی میں پروفیسر عظمت شہزاد عزمی کی شائع ہونے والی کتاب بلکہ اگر اسے تحقیقی مقالہ بھی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا " افضل منہاس کی غزل گوئی" تحقیقی و تنقیدی جائزہ کتاب ، کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس شخصیت پر لکھی جانے والی اپنی نوعیت کی یہ نئی کتاب ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ غالباً آج تک ماہرینِ ادبیات و شخصیات نے افضل منہاس صاحب کو کبھی اس زاویے سے دیکھنے کی یا تو قصداً کوشش نہیں کی یا پھر صرفِ نظر کرتے رہے۔
کزشتہ دنوں آفتاب احمد ملک خیرپوری کا فون آیا کہ پروفیسر عظمت شہزاد عزمی کی کتاب شائع ہوئی ہے۔ ان سے ایک عدد اعزازی کاپی لے لیں۔ میرے لئے عظمت شہزاد عزمی بالکل ایک انجان شخص تھے لیکن جب فون پر بات ہوئی تو انکا انداز تکلم دل کو بھا گیا۔ اپنائیت کا احساس اس حد تک ہوا کہ جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ کچھ دنوں بعد ملاقات ایک ایسے مقام پر ہوئی جہاں قد آور علمی و ادبی شخصیات موجود تھیں۔ ملاقات پیرزادہ عابد حسین شاہ کے گھر پر ہوئی ، پروفیسر محمد خان ہستال ، پروفیسر عظمت شہزاد عزمی اور راقم بھی موجود تھا اس دوران فون پر صفدر فیضی ایڈووکیٹ اور آفتاب احمد ملک خیرپوری بھی شریک محفل ہوئے۔ محققانہ گفتگو کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔
"افضل منہاس کی غزل گوئی" کتاب کا سر ورق علی خان نے بنایا ہے اور علی خان نے اس کا اہتمام کر کے اسے ورق پبلیکشنز سے شائع کرایا ہے۔ کتاب کا سر ورق کتاب کے موضوع کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ "افضل منہاس کی غزل گوئی" جو اس علمی کام کا ٹائٹل ہے۔ ٹائٹل اور مصنف کے نام کے درمیان میں صفحے کے دائیں جانب سے شروع اور بائیں جانب نسبتاً نیچے کی طرف جاتے ہوئے ایک تصویری خاکہ بنایا گیا ہے، جسے دیکھ کر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ سر ورق میں افضل منہاس کی شخصیت کے زمانی دور کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔
میرے نزدیک افضل منہاس کی شاعری پر بات کرنا ایک حسّاس امر ہے۔ کیونکہ شاعری پر تنقید کرنا ہر خاص وعام کا شیوہ بن چکا ہے؛ لیکن میرے نزدیک شعر کو اس کی گہرائی میں اتر کر سمجھنا اور اس سے لطف اندوز ہونا، شعر پر بات کرنے کا بنیادی تقاضا ہے۔ عظمت شہزاد عزمی چُوں کہ بنیادی طور پر اردو دان ہیں، اس لیے کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے اس کا انیلیسس کرلیتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ وہ ایک اچھے نثر نگار ، شاعر اور افسانہ نگار بھی ہیں نیز انہیں اپنا کلام مختلف شعراء کی موجودگی میں سنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جس پر وہ بَہ جا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔
"افضل منہاس کی غزل گوئی" کتاب کو بنیادی طور پر پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے بات میں انکی شخصیت ، احوال و آثار ۔ جبکہ دوسرے باب میں افضل منہاس کی شاعری کا ارتقائی ، سفر چکوال کی ادبی فضا قیام سے پہلے ، قیام پاکستان کے بعد ، انکی دلی سے پاکستان واپسی راولپنڈی ہجرت ، راولپنڈی کا ادبی منظر نامہ ، مختلف غزل گو شعراء جبلن میں شاہ مراد خانپوری ، اسد رحمان قدسی بھون ، باغ حسین کمال پنوال ، عابد جعفری ، راولپنڈی کی ادبی تنظیموں اور معاصر شعراء تیسرے باب میں افضل منہاس کی غزل گوئی کا فکری مطالعہ ان کا تصور عشق ، عصری حسیت ، حب الوطنی ، درد مندی ، سیاسی شعور ، توحید / الہیات ، بے ثباتی حیات۔ چوتھے باب میں انکی شاعری کا فنی مطالعہ جس میں تشبیہات و استعارات ، لف و نشر ، تضاد ، تکرار لفظی ، قافیہ و ردیف۔ جبکہ پانچویں اور آخر باب میں افضل منہاس کا معاصرین کی نظر میں ادبی مقام جن میں فارغ بخاری ، سید ضمیر جعفری ، احمد ندیم قاسمی کا تبصرہ وغیرہ شامل ہے۔
افلاطون نے مثالی معاشرے میں سے شاعر کو خارج کر دیا تھا جبکہ اس کے جواب میں دیگر کئی فلاسفرز نے شاعری کا نہ صرف جواز پیش کیا بلکہ سر فلپ سڈنی اور ارسطو نے شاعر کو مثالی معاشرے کا اہم رکن قرار دیا ہے۔ بقول شیلے " شاعری فی الحقیقت ایک ملکوتی و جبروتی چیز ہے۔ وہ علم کا مرکز بھی ہے اور محیط بھی وہ سارے علوم انسانی پر حاوی ہے اور سارا علم انسانی اس سے سند اعتبار حاصل کرتا ہے وہ ہر نظام فکر کی بیخ و بن بھی ہے اور شگوفہ بھی سب نظام ہائے فکر اسی سے پھوٹتے ہیں اور اسی سے کسب نمو کرتے ہیں اور وہ سوکھ جائے تو نہ پھل اور نہ بیج دستیاب ہو اور اس خزاں رسیدہ نخل زندگی کے وارث اپنے فطری روثے سے محروم ہو جائیں۔"
افضل منہاس کا اصل نام وزیر احمد تھا شاعرانہ نام افضل منہاس اور افضل بطور تخلص استعمال کرتے تھے انہوں نے اپنی ابتدائی دور کی شاعری میں اپنا تخلص وزیر ہی لکھا تاہم انکی تمام مطبوعہ کتب میں "افضل" بطور تخلص ملتا ہے.
افضل منہاس نے برطانوی فوج میں ملازمت اختیار کی اور رائل آرمی میں بحثیت حوالدار خدمات سر انجام دیتے رہے ، آرمی میں دل نہ لگنے کی وجہ سے تھوڑی ہی مدت بعد ملازمت ترک کر دی اور تحریک پاکستان میں شمولیت اختیار کر کے آزادی کے قافلے کے سالار بن گئے۔
غزلیات افضل منہاس کا فکری جائزہ لیتے ہوئے مصنف ایک جگہ رقمطراز ہوتے ہیں کہ "افضل منہاس کی غزل جدید روایت کا ایک ایسا شفاف آئینہ ہے جس میں حسن و عشق کے کامل جذبے ، عصری حسیت کے تمام رنگ اور دل آویز تغزل کے ان گنت پہلو اپنی تمام تر تابانی کے ساتھ منعکس ہو رہے ہیں۔ وہ زمانے کی ناقدری ، اخلاقی اقدار کے زوال اور مادی پیکر کی ہیداد گریوں کا ذکر کرتے ہوئے مایوسی کے گھپ اندھیروں مکے مسافر نہیں بنے بلکہ تیرہ شبی میں امید ر رجاء کے جگنو تلاشتے رہتے ہیں انکی شاعری کا موضوع انسانیت ہے یہی فکر انہیں آفاقی شاعر بناتی ہے۔"
افضل منہاس کی شاعری کے دوسرا دور جو کہ 1942 سے 1958 کا درمیان ہے کہ میں وہ لینن اور مارکس کے نظریات سے متاثر ہو کر عشق و محبت کے روایتی تصورات کو چھوڑ کر ترقی پسند تحریک کے زیر اثر دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ، طبقاتی امتیازات ، بھوک و افلاس ، بیروزگاری اور عصری مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا جس کی واضح جھلک ان اشعار میں نظر آتی ہے۔
اہل سرمایہ کے ہاتھوں پہ تھرکتی دولت
ان کے ہر سانس میں چشموں سے ابلتی دولت
اک طبقہ غرباء ہے جو دولت سے ہے محروم
جن کے سائے سے بھی ہے دور سرکتی دولت
آپ کے اس دور کی شاعری میں داخلی کرب اور غریب الوطنی کے ردر کا عنصر بھی نمایاں ہے۔
میں تجھی کو ڈھونڈتا پھرتا تھا رے میرے نصیب
شوق سے لگ جا گلے ، اب اور بھی آ جا قریب
تجھ کر پا کر سر خروئے جستجو ہوتا ہوں میں
چھوڑ کر پنجاب کو آیا ہوں میں غربت نصیب
لیکن اسی دور میں آپکی شاعری میں حب الوطنی کا عنصر بھی ملتا ہے کیونکہ وہ وقت تحریک پاکستان کے عروج کا زمانہ تھا تو جلد ہی آپ نے ترقی پسند نظریات کر پرچار چھوڑ کر آزادی کے ترانے لکھنے شروع کر دیئے اب اس تبدیلی کی وجہ چاہے جو بھی ہو
شائد لینن اور مارکس کے نظریات کا صحیح سے سمجھ نہ پانا یا پھر اس فضا میں خود کو آرام دہ محسوس نہ کرنا اور وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت ترقی پسند تحریک کا اثر و رسوخ جلد ہی ختم ہو گیا تھا ۔ یا پھر چونکہ آپ اس وقت دلی میں تھے اور آپ چونکہ مسلمان بھی تھے تو غالب گمان یہی ہے کہ آزادی اور حریت کے جذبے نے شاعری کو ترقی پسند تحریک کے بجائے تحریک آزادی پاکستان کی جانب موڈ دیا یا پھر شائد ترقی پسند تحریک میں اس قدر پزیرائی نہ مل سکی جبھی شاعری میں غربت و افلاس ، بیروزگاری کے بجائے حب الوطنی ، آزادی ، جذبہ حریت کی جانب میلان کیا جس سے یقیناً پذیرائی کا صد فیصد امکان تھا۔
جس کی ایک جھلک ان اشعار میں ملتی ہے۔
پاکستان بنائیں گے
ہم پاکستان بنائیں گے
دور غلامی ختم کریں گے
آزادی کو لائیں گے
ہم پاکستان بنائیں گے
1947 میں قیام پاکستان کے بعد آپ اپنے آبائی شہر چکوال تشریف لائے اس دور میں انہوں نے زیادہ تر ملی شاعری کی
وطن کی بات چلی تو میں جھول اٹھا افضل
قلم کے لب پہ وطن کا ترانہ رکتا ہی نہیں
اور یہ شعر ملاحظہ کیجئے
اس سے بڑھ کر دوسری نعمت نہیں افضل کوئی
سانس آزادی سے لیتا ہوں زمین پاک پر
اسی دور میں انہوں نے تحریک پاکستان کی سرکردہ شخصیات جن میں قائد اعظم محمد علی جناح ، محترمہ فاطمہ جناح ، نوابزادہ لیاقت علی خان پر بھی نظمیں لکھیں اور خوب داد و تحسین وصول کی۔ آپ کی نظم بعنوان قائد اعظم محمد علی جناح کے چند اشعار ۔
اے قائد طلوع وطن فکر کے سفیر
اے آفتاب صبح سفر روح مستنیر
اے جلوہ بہار چمن ، قوم کے امیر
اے خدوخال مملکت پاک کے رہبر
تیری کتاب خودی کا رجہان ہے
لاریب تجھ پر رب جہاں مہربان ہے
افضل منہاس کی شاعری کا تیسرا دور 1958 سے 1997 تک کا ہے جس میں آپ نے بطور ایک ملی شاعر سے ہٹ کر دوبارہ سےغزل گوئی کی جانب مائل ہو گئے۔ چونکہ پچاس کی دہائی میں آپ نے راولپنڈی کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا تھا راولپنڈی آنے کے بعد وہ تا دم مرگ فکر سخن کے چراغ جلاتے رہے ان کی غزلیات کے تینوں مجموعے اسی دور میں منظر عام پر آئے
قیام پاکستان کے بعد 1965 اور پھر 1971 کی پاک ، بھارت جنگ نے برصغیر پاک و ہند کے شعراء کو متاثر کیا خاص طور سانحہ سقوط ڈھاکہ۔ ان جنگوں ، سانحات نے افضل منہاس کے ذہن و دل میں کرب ناکہ بھر دی جو انکی تخلیق سے پوری طرح عیاں ہے۔
کاغذی فیصلوں کو آگ کیوں دکھاتے ہو
مبتلا نہ ہو جاؤ اک نئی اذیت میں
زلزلوں نے گھیرا ہے روشنی کے پیکر کو
اک دراڑ دیکھی ہے میں نے سالمیت میں
کتاب کے چوتھے باب میں مصنف تکرار لفظی کی ہیڈنگ کے بعد لکھتے ہیں کہ شاعری میں اعلی و ارفع خیالات سلاست کے ساتھ بیان کرنے کے ساتھ بیان کرنے کے لئے لفظی تکرار کا سہارا لیا جاتا ہے تکرار نثر اور شعر میں معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن اگر انہیں سلیقے سے برتا جائے اور رمز ایمائی اگر اثر بڑھانے میں مدد دے تو شعر کی بلاغت اور حسن میں اضافہ ہوتا افضل منہاس نے اپنے کلام میں لفظی تکرار سے ایک خاص حسن پیدا کیا ہے انکی شاعری میں تکرار لفظی کھٹکتی نہیں بلکہ ایک مترنم سا تاثر پیدا کرے ہوئے شعر کے مفاہیم میں وسعت پیدا کر دیتی۔
میں فاضل مصنف پروفیسر عظمت شہزاد عزمی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے چکوال کی ایک ادبی شخصیت پر مقالہ لکھ کر انہیں دوبارہ زندہ کر دیا۔
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.