ٖ مکافات عمل سے انکار ممکن نہیں وائس آف چکوال (VOC)

ڈاکٹر زاہد عباس چوہدری 


ڈیڑھ سال قبل میں نے اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا کہ عمران خان کا کوئی سیاسی مستقبل مجھے نظر نہیں آ رہا اس کی یہ وجہ نہیں تھی کہ عمران خان سے خدانخواستہ مجھے کوئی ذاتی تکلیف یا رنجش ہے بلکہ میں نے عمران خان کے طرز سیاست کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا۔ عمران خان کی پونے چار سال کی حکومت کے دوران بھی میرے خان صاحب کے خلاف لکھے گئے کالموں کی تعداد درجنوں تک ضرور ہو گی وجہ یہی تھی طرز سیاست ، جسے یونین کونسل چلانے کا تجربہ نہ ہو اسے ملک سونپ دیا جائے تو حالات وہی ہونے تھے جو ہوئے ، ڈیڑھ سال قبل جس دن عمران خان نے ایک انتہائی متنازعہ بیان دیا تھا کہ ملک کے تین ٹکڑے ہوں گے اور سب سے پہلے فوج تباہ ہو گی اسی روز سے ملک دشمنی کا ایجنڈا کھل کے سامنے آ گیا تھا اور مجھے لکھنا پڑا کہ اب آپ کی تباہی شروع ہونے والی ہے اس ملک پہ اللہ کا کرم ہے اسے کچھ نہیں ہو گا ، تحریریں مشاہدے اور تجربے کی بنا پر تھیں لیکن حرف بہ حرف درست نکلیں گی اتنا یقین نہیں تھا لیکن یہ نوازشات قدرت کاملہ کی طرف سے ہیں کہ اس بندہ ناچیز کے قلم کی نگارشات کو سچ کر دکھایا۔


نو مئی کے واقعات کے بعد عمران خان کی پاک فوج کے خلاف نفرت اور ملک دشمنی کا ایجنڈا کھل کر سامنے آ گیا ، جناح ہاؤس ، کور کمانڈر ہاؤس اور جی ایچ کیو پہ حملہ آور ہونے والے ملزمان کے اعترافی بیانات سامنے آ چکے ہیں کہ عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں یہ سارا پروگرام پہلے سے ترتیب شدہ تھا ، حیرانگی ہوتی ہے اس بات پر کہ ایسے لوگ ملک کے حاکم بھی رہے ہیں جو اقتدار چھن جانے کے بعد ملک پہ چڑھائی کا سوچتے ہیں ایسا کرنا تو دور کی بات میرے نزدیک ایسا سوچنا بھی جرم ہے۔


جب یہ بات کھل کر سامنے آئی تو ملک بھر میں پی ٹی آئی کے عہدیداران اور سابق ایم این ایز و ایم پی ایز سمیت مختلف سابق وزرا کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں جو کہ ان معاملات میں قصور وار سمجھے جا رہے تھے یا مختلف شہروں میں عوام کو توڑ پھوڑ کے لیے اور حالات خراب کرنے کے لیے اکسا رہے تھے ، مقدمات اور گرفتاریوں کا ایک سلسلہ چل نکلا اور ایسے میں وطن عزیز اور پاک فوج سے محبت کرنے والوں نے اپنا پھرپور کردار ادا کیا ، ملک بھر میں پاک فوج کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے ریلیاں نکالی گئیں اور عوامی پریس کلب ضلع چکوال کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ عزم خاص کے ساتھ ضلع چکوال کے مرکز ڈھڈیال میں ایک بڑی ریلی نکالنے میں پہل کر دی مجھے بطور چیئرمین عوامی پریس کلب ضلع چکوال اور بطور صدر عوامی اتحاد میڈیا کونسل پاکستان ہمیشہ اس بات پہ فخر رہے گا کہ ایسے کشیدگی کے حالات میں میرے ساتھ میرے تمام دوستوں نے پاک فوج زندہ باد کا نعرہ لگایا ، بلا شبہ ضلع چکوال سے پاک فوج کے حق میں اٹھنے والی یہ پہلی آواز تھی جو ہمارے لیے باعث فخر ہے اور اس کے بعد پاک فوج سے محبت کرنے والوں نے ملک بھر میں پاک فوج کے حق میں ریلیاں اور جلوس نکال کے پاک فوج سے اپنی محبت اور یک جہتی کا اظہار کیا۔


ان حالات میں کچھ اچھے پہلو بھی سامنے آئے کہ خان صاحب کی طرف سے الاپے ہوئے سازشوں کے سارے راگ زمین برد ہو گئے اور اس سے اچھا بھی یہ ہوا کہ خان صاحب کی چھ مہینے سے خراب ٹانگ ایک ہی دن میں ٹھیک ہو گئی، پتہ نہیں خان صاحب یہ سب کیسے کرتے تھے ہم سے تو بیوی کے سامنے بھی جھوٹ بولا نہیں جاتا اگر غلطی سے بول بھی دیں تو وہ فوراً پکڑ لیتی ہے ، بہر حال یہ تو ماننا ہی پڑتا ہے کہ ملک دشمنی کے ایجنڈے کے ساتھ ساتھ خان صاحب جیسا بڑا مداری کوئی  بھی ملک بھر میں نہیں ہے لیکن مداری آخر مداری ہوتی ہے حقیقت نہیں۔


پھر ٹانگہ پارٹی جو کہ خان صاحب نے ادھار لی ہوئی تھی نکلنی شروع ہو گئی ، جیسا کہ وٹے سٹے کی شادیوں میں ہوتا ہے۔ خان صاحب تنہائی کی طرف چل پڑے ابھی تو یہ شروعات ہے یہ سلسلہ کسی پہاڑی سلسلے کی طرح بہت آگے تک جانے کی توقع ہے۔


مکافات عمل سے انکار ممکن نہیں کیونکہ یہی نظام قدرت ہے،مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب نواز شریف کی بیوی کئی دن تک وینٹی لیٹر پر  موت و حیات کی کشمکش میں تھی اور کہنے والے یہ بھی کہتے تھے کہ یہ سب ڈرامہ ہے ، پھر کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا بیٹی چھوڑ دی خود بھاگ گیا مگر مجھے یہ بھی علم ہے کہ نواز شریف کی رپورٹس یاسمین راشد نے بنوائی تھیں ،عدالتی ڈرامہ الگ سے رچایا گیا لیکن حقیقت یہ تھی کہ نواز شریف کی جیل میں موجودگی بھی خان کی حکومت کو کھائے جاتی تھی یہ حتمی بات ہے کہ نواز شریف کو ملک سے نکالنے کا پروگرام ترتیب شدہ تھا ، لیکن کمال حوصلہ ہے اس شخص کا کہ ایک بار بیرون ملک سے واپس آ کر بیٹی سمیت گرفتاری بھی دی اور پھر زبردستی نکالا گیا مجھے نواز شریف کے یہ الفاظ نہیں بھولتے کہ میں اپنا فیصلہ اللہ پہ چھوڑتا ہوں ۔

اور ایک شخص ایسا بھی ہے گرفتاری سے قبل ہی ملکی املاک اور پاک فوج کی اہم ترین املاک پہ حملے کرنے کے پروگرام ترتیب دے دیتا ہے ، سوال یہ ہے کہ دونوں میں سے برداشت کس میں زیادہ ہے اور اعلیٰ ظرف کون ہے، چور ڈاکو کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے لیکن سرخرو کون ہوا سوچنے اور پرکھنے کی بات ہے۔

ستاروں پہ فیضیاب ہونے والے بھی کمند نہیں ڈال سکے ماضی کا نااہل شخص واپسی کی راہ پہ ہے اور فیضیاب ہونے والے بھاگنے اور ڈیل کرنے کے چکر میں ہیں جیل اوپر نہیں گرتی مگر جیل مردوں کے لیے ہوتی ہے اور ایک فلم کا ڈائلاگ کوٹ کرتا چلوں کہ "مرد تو یہاں کوئی رہا ہی نہیں" ، یہ سوال عمران خان کو چھوڑ کے جانے والوں کے لیے ہے لیکن جانتا ہوں کہ اس سوال کا جواب نہیں ملے گا ، اللہ تعالیٰ ملک و ملت کا حق و ناصر ہو پاک فوج زندہ باد پاکستان پائندہ باد۔

 


0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top