ٖ مسئلہ فلسطین اور امت مسلمہ وائس آف چکوال (VOC)

 

✍️ تحریر۔۔۔بنارس خان

  بہادر ٹاؤن چکوال شہر 

حق کی خاطر مرو یا ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مرو

اک دن تو مرنا ہے موت سے بچ نہ پاؤ گے

یہ شعر فلسطین کی تازہ صورتحال پر واضح صادر آتا ھے  دیر آے درست آے راقم التحریر اس پر عمل پیرا ھوا فلسطین کے مظلوم مسلمان بھائیوں کے حق میں لکھنے کا سوچتا رہا خیر رات کے درمیانے پہر لکھنے کی قوت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی۔

 فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ھے یہ امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ ھے ۔جس کیلے مظلوم فلسطینی مسلمان بھای 1948 سے لیکر اب تک ظلم و ستم جبر اور ہر قسم کی تکلیفوں کا سامنا کر رہے ھیں۔مسجد اقصیٰ ہم سب مسلمانوں کیلے مقدس ھے اور یہودیوں کے ناپاک عزائم  ھیں کہ وہ مسجد اقصیٰ کو مسمار کرکے تھرڈ ٹیمپل ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ھیں۔دوسرا فلسطین مسلمانوں کا ھے اور اسرائیلی ریاست ناجائز طور پر مسلمانوں کی جگہ کو غصب کرکے بنائ گئی۔

1948 کا فلسطین اور اب کا اسرائیل واضح طور نقشوں پر دیکھا جا سکتا ھے کہ کس طرح یہودی پناہ گزین بن کر جرمنز کے ظلم سے بھاگ کر بھوکے پیاسے اور ننگے آے تھے اور کس طرح کفار کی سپورٹ سے ظلم و ستم کرکے فلسطین پر قابض ھوے اور جو ظلم و جبر کی صورتحال فلسطین میں پچھلے 6 ماہ سے ھے وہ تو انتہاہی اندوہناک اور خطرناک ھے ۔ظلم ستم اور جبر کی ایک تاریخ رقم کی جارہی ھے۔اتنے بم اور بارود نہتے فلسطینیوں پر برسایا جا رہا ھے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اس ظلم سے سب سے زیادہ مسلمان بچے اور خواتین شہید ھوے اور حماس کے جھوٹے تعاقب کو سامنے رکھ کر پے در پے زمینی اور فضائی حملے جاری ھیں۔ہزاروں بے گناہ مظلوم فلسطینی مسلمان بھای شہید ھوے۔مسلمانوں کی سرعام نسل کشی جارہی ھے دل  خون کے آنسو روتا ھے۔

7 اکتوبر 2023 کو فلسطین کی مقامی تنظیم حماس نے تنگ آمد بجنگ آمد کی بنیاد پر اسرائیل پر راکٹ برسائے ۔مجاھدین پیرا گلیڈرز کی مدد سے اسرائیل کے علاقوں پر اترے بہت سارے علاقوں کا کنٹرول سنبھالا اور اسرائیل کے جھوٹے ناقابل شکست حصار کو توڑ کر کفر کو ایک واضح پیغام دیا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور مصمم ارادہ سے کچھ بھی ناممکن نہیں۔جب ظلم حد سے بڑھ جاے تو مٹ جاتا ھے۔

غزہ کی پٹی ایک کھلی جیل کی مانند تھی جس میں ایک دیوار بنا کر مظلوم فلسطینیوں کو مارا جاتا رہا اور دوسری طرف سمندری پانی جس میں فلسطینی مسلمان شکار تک اپنی مرضی سے نہیں کرسکتے تھے مظلوم مسلمانوں کو شہید کردیا جاتا انکو عقوبت خانوں میں رکھا جاتا۔یہودی مسلمان عورتوں کی عزتوں سے کھلواڑ کرتے۔کیا کیا مصیبتیں مظلوم مسلمانوں نے نہیں جھیلیں۔جو کہ ناقابل بیاں ھیں۔

7 اکتوبر 2023  جنگ کی شروعات کے ساتھ ھی اسرائیل نے حواس باختہ ھو کر حماس پر جوابی حملوں کے ساتھ ساتھ نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا اور ظلم کی وہ داستانیں رقم کیں کہ ہر آنکھ اشک بار ھوی ایک ایک جگہ ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ہسپتالوں ۔سکولوں۔ گھروں۔پناہ گزین کیمپس ریسکو اداروں اور  اہلکاروں سب کو نشانہ بنایا۔حماس نے بھی اپنی طاقت سے جتنی ان میں تھی اس سے اسرائیل کی افواج کو ٹف ٹائم دیا اور نقصان پہنچایا۔ساتھ ھی کفار  عالمی سطح پر اکٹھا ھونا شروع ھو گئے اور اسرائیل کو معصوم اور بے گناہ ثابت کرنے کی عالمی مہم کا آغاز شروع کردیا۔امریکہ۔برطانیہ۔ فرانس۔جرمنی اور بہت سارے ممالک کے صدور و اہم عہدے رکھنے والے لوگوں نے اسرائیل کے دورے کیے اور ساتھ اسلحہ بارود تک سرعام لیکر گئے اور امریکہ نے بحری بیڑے بھی سمندر میں بھجوا دیے کہ کہیں مسلم ممالک کی افواج اسرائیل پر حملے نہ کردیں۔جو کہ ایک اسرائیل کی معاونت اور محفوظ کرنے کا ایک بہانہ ھی تھا۔اسرائیل نے ظلم ستم جاری رکھا اور غزہ پر اتنا بارود گرایا کہ اتنا ایک سال میں بھی امریکہ نے افغانستان پر حملے کے دوران نہیں گرایا۔اور 30 ہزار سے زائد معصوم مظلوم فلسطینی مسلمان مرد۔عورتیں اور بچے شہید ہوگئے لاکھوں زخمی اور بے گھر ھوے انکے گھر بموں سے مسمار کیے گئے اور عالمی سطح پر امریکہ اور  مغرب کا انسانی حقوق کا جھوٹا پروپیگینڈا بھی واضح طور پر بے نقاب ھوا۔ اسرائیل کے سپورٹرز نے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔

 اب آجاہیں مسلم امہ کے کردار پر جو کہ انتہائی افسوناک اور شرمناک ھے کہ اس نے مظلوم فلسطینی مسلمانوں پر ھونے والے ظلم کے خلاف کیا اقدامات کیے۔مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی جوکہ صرف Oh I See ھی بن کر رہ گئی ھے۔ دو چار اجلاس بلا کر اور منافقانہ کردار ادا کرتے ھوے ھی اجلاس ختم کیے کوی واضح بیان نہ دیا یا لائحہ عمل اختیار نہ کیا اور جو ممالک اسرائیل کے خلاف جنگ کرنا چاہتے تھے انکی آواز کو بھی سعودیہ ۔متحدہ عرب امارات وغیرہ نے الجھاؤ کی کیفیت پیدا کرکے دبا دیا۔اسلامی ممالک عالمی سامراجی نظام کے چنگل اور آپس کی چپقلشوں میں اس قدر پھنس چکے ھیں کہ ان کو کوی قدم اٹھانے کی جرات تک نہیں حالانکہ 90 لاکھ یہودی اور ڈیڑھ ارب مسلمان ھیں۔اسلامی ٹھیکیدار سعودی عرب اور ترکی جس کی طرف سب کی نظر تھی وہ بھی چپ رہے اور کبھی کبھی ڈھکے چھپے انداز میں بیان بازی کرکے چپ ھوگئے اور 34 اسلامی ممالک کی فوج کا ابھی تک اتہ پتہ نہیں کہ وہ کہاں گئی۔اور باقی اسلامی ممالک بھی کوی واضح عملی قدم نہیں اٹھا سکے۔واحد مسلم ملک صرف یمن جنگ زدہ اور معاشی کمزور ھونے کے باوجود اعلان جہاد کرگیا جس نے اسرائیل پر راکٹ مارے بحری جہازوں کو اغوا کیا اسرائیل کو معاشی نقصان پہنچایا اور پہنچا رہا ھے لبنان نے بھی اسرائیل پر راکٹ داغے جس سے کوی مسلمانوں کی مزاحمت کی آواز آئی۔اور افسوناک بات ابھی تک کچھ اسلامی ممالک اسرائیل کو براہ راست یا بلا واسطہ تیل کی فراہمی جاری رکھے ھوے ھیں اور مظلوم مسلمانوں تک مسلمان ممالک کی طرف سے کوی واضح امداد نہیں پہنچ رہی غزہ کے مسلمان سخت خوراک۔پانی اور ادویات کی کمی کا شکار ھیں۔مسلمان ممالک تو کم لیکن غیر مسلم کچھ حکمرانوں نے اسرائیل کے سفیروں کو نکالا سفارتی تعلقات ختم کیے اور ظلم  پر اسرائیل کو شدید تنقید کا بھی نشانہ بنایا عالمی عدالت انصاف تک لے گئے۔لیکن جن مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ھیں ان  مسلم حکمرانوں کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ختم کرکے واضح پیغام دینے کی ضرورت ہے۔جو کہ لازمی ھے۔

فلسطین کی 6 ماہ کی جنگ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ اوائل جنگ کے دوران عالمی مسلم عوام اور غیر مسلم عوام نے بھرپور مظاہرے کیے احتجاج کیا لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکلے اور اپنے حکمرانوں کو بہت جھنجھوڑا ۔مفتیان اسلام نے واضح جہاد کے فتوے دیے بائیکاٹ کے فتوے دیے ۔مسلمانوں نے اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔کچھ جلد بھول گئے اور کچھ مسلمان ابھی تک بائیکاٹ جاری رکھے ھوے ھیں لیکن جہد مسلسل کی ضرورت ھے۔کہ آپ کا پیسہ اسرائیل اور اسکے سپورٹرز کو کسی صورت نہیں پہنچنا نہیں چاہیے سب مسلمان ممالک اپنے اپنے ملکوں کے برانڈز استعمال کریں کوالٹی پر کمپرومائز ھوسکتا ھے لیکن مظلوم مسلمانوں کے خون پر کسی صورت بھی کمپرومائز نہیں ھوسکتا۔مسلمانوں کی بائیکاٹ مہم سے کافی حد تک کفار کو نقصان پہنچا جس کو جاری رکھنے کی ضرورت ھے تاکہ واضح پیغام جاسکے۔اور بائیکاٹ ھونا بھی چاہیے۔کیونکہ یہ بائیکاٹ آپ کے ہاتھ میں جو ھے جو آپ کرسکتے ھیں۔وہ لازمی کریں۔

اقوام متحدہ اہل مغرب و انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں جو کتوں بلیوں کے حقوق کی بات کرتے ھیں جو ملالہ یوسفزئی کو گولی لگنے پر تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ھیں لیکن مظلوم فلسطینی مسلمانوں پر برسوں سے سرعام ظلم ھورہا انکو قتل کیا جارہا ھے انکو بے گھر کیا جا رہا انکو بھوک اور پیاس سے مارا جا رہا ھے لیکن یہ انکو نظر نہیں آ رہا۔فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے گھروں۔ مساجد ۔سکولز اور ھسپتالوں سب کو بموں سے اڑا دیا گیا ظلم کی وہ داستانیں اس جدید دور میں جس میں ہر چیز سوشل میڈیا پر وائرل ھو رہی ھے لیکن جنگ بند نہیں ھورہی۔امریکہ ہر جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کر رہا اس سے کیا پیغام دیا جارہا ھے۔مسلمانوں کی سرعام نسل کشی جاری ھے اور تمام مسلم ممالک کے حکمران چوں تک نہیں کررہے۔لیکن یہ وقت کسی پر بھی آسکتا ھے اس کا سب کو اپنے رب کے حضور اسکا جواب دینا ھوگا۔اتنی مال و دولت فوجی طاقت اور وسائل کے باوجود بھیگی بلی بنے ھوے ھیں۔جو کبھی ایک قوم تھی۔

فلسطین فلسطینی مسلمانوں کا ھے اور مسجد اقصی تمام مسلمانوں کی ھے جس کی وجہ سے فلسطین کے مسلمان جبر مسلسل کو برادشت کر رہے ھیں لیکن کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں انکی بہادری اور شجاعت کو سلام کیونکہ وہ مسجد اقصیٰ کی جنگ صرف انکی نہیں سب مسلمہ امہ کی جنگ ھے۔جس حد تک ھوسکے ہم سب کو فلسطینی مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے کی ضرورت ھے۔اسرائیل نے امداد بند کی ھوی ھے اور دوسری طرف مصر نے اونچی دیوار بنا کر بارڈر بند کرکے اور واضح منافقت کی۔اب پیچھے اسرائیل اور اسکے سپورٹرز مسلمانوں کو بموں ٹینکوں گولوں سے اور ساتھ بھوک اور پیاس سے مار رہے اور آگے مصر کا بارڈر بند ھے جوکہ ناقابل بیان داستان ھے۔

مسلم ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ ایک ھوکر اسرائیل کو واضح پیغام دیں اور ٹھوس بیان دیں اور عالمی مسلم عوام کو چاہیے کہ ہر فورم پر مظلوم مسلمان بھائیوں کیلے آواز اٹھائیں۔کفار کی مصنوعات کا بائیکاٹ جاری رکھیں۔اور جس طریقے سے بھی ھوسکتا ھے ہر صورت فلسطینی مسلمانوں کی  مدد کریں۔

اللہ تعالیٰ فلسطین کے مسلمانوں کی مدد فرماے آمین یارب العالمین

 بہادر ٹاؤن شہنشاہ چوک چکوال شہر

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top