ٖ سانحہ موٹروے یا کھیل وائس آف چکوال (VOC)
ہیڈ لائن

2:26 PM استاد کا احترام

گزشتہ بارہ سالوں سے منتخب نمائندگان نے سیاسی رسی کشی تو کبھی کشمکش اور سیاسی مفادات میں گم سم رہے عوام الناس کے تمام تر فلاح و بہبود اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے ذاتی خواہشات، ذاتی عناد، خود غرضی و مفادات کی آگ میں جھکے رہے۔


 یہی وجہ ہے کہ عوام الناس کیساتھ چھوٹے بڑے سانحات ہوتے رہے لیکن یہ منتخب نمائندگان اپنی ذات سے کبھی باہر نکلنے کا سوچا بھی نہیں آج جو ریاست پاکستان اور نظام پاکستان کا حال ہے اس کے سراسر یہی منتخب نمائندگان قصوروار ہیں۔


 حالیہ دنوں میں سانحہ موٹروے پر میں مسلسل چاروں اطراف بیان بازی کا شور الیکٹرونک میڈیا سے شوشل میڈیا تک دیکھتا رہا ہوں میں مجبور ہوگیا کہ اس بابت تحقیقی رپورٹ یا کالم تحریر کروں اس بابت اپنے دوستوں اور ذرائع سے مدد حاصل کیں۔۔۔ 


معزز قارئین!! موٹروے واقعے میں جو "ذیادتی" کا شکار خاتون ہیں انکے متعلق بتایا گیا کہ جو خاتون فرانس سے آئی تھی اور پھر تب سے منظر سے غائب ہے۔ عورت کو فرانس کی نیشنل ظاہر کرنے کے پیچھے وجوہات ہیں کہ ایک تو وہاں ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اجلاس ہونے جا رہا تھا اس لیئے وہاں پاکستان کو خواتین کیلئے غیرمحفوظ قرار دینا اور ساتھ ساتھ اسلامی ممالک میں ایسے واقعات کے نام سے اسلامو فوبیا کو تقویت دینا شامل تھا۔


دوسرا اگر یہ ڈرامہ کسی پاکستانی خاتون کے ذریعے کیا جاتا تو پانچ منٹ میں سارا ڈرامہ ایکسپوز ہو جانا تھا اور اگلے ہی لمحے اس سارے واقعے کے پیچھے موجود بھیانک کردار سامنے آجانے تھے۔ فرانس سے آئی ہوئی خاتون کو نہ تو کسی نے دیکھا، نہ ہی اُسکی کوئی فوٹیج، نہ ہی کوئی شناختی کارڈ۔ مزید یہ کہ نام غلط، موبائل نمبر غلط، گھر کا پتہ غلط ۔


اب اگر وہ آرام سے سارا کھیل کھیلنے کے بعد فرانس چلی بھی گئی ہو تو ساری زندگی ڈھونڈتے رہیں کسی کو کیا علم وہ خاتون کون تھی کیسی دکھتی تھی، جب کوئی جانتا ہی نہیں تو یہ ڈرامہ لمبا چلے گا اور لٹکا رہے گا۔ ایک تیر میں دو شکار ہوجائیں گے۔ مکمل طور پر پہلے سے طے شدہ تھا اور ساری سازش صرف سی سی پی او لاہورکیخلاف تھی۔


 یہ سارا واقعہ کیا تھا، کیسے ہوا اور کیوں ہوا؟ اس کی تفصیل کچھ اسطرح سے  ہے۔ایک عورت بمطابق ایف آئی آر رات کے اندھیرے تقریبا ساڑھے بارہ بجے گھر سے اپنے تین کمسن بچوں کے ہمراہ نکلتی ہے۔ ساتھ اپنے ایک پرس رکھتی ہے جس میں مدعی کے مطابق ایک لاکھ کیش، دو سونے کے کڑے اور ایک بریسلیٹ، تین اے ٹی ایم کارڈ موجود ہوتے ہیں۔ 


سب سے پہلا سوال یہ کہ اگر مجھے اسلام آباد تک سفر کرنا ہےاور میں یہ جانتا بھی ہوں کہ میں نے بذریعہ موٹروے جانا ہے جس پر پٹرول پمپ موجود نہیں یا شہر کے قریب جا کر ہے تو کیا میں اس قدر بے وقوفی کروں گا کہ میں پیٹرول ہی نہ بھرواوں حالانکہ پیٹرول کا علم تو کار میں بیٹھے بیٹھے پتہ لگ جاتا ہے۔ کیا اس عورت کو اتنا بھی پتہ نہ چلا؟


 دوسرا سوال یہ کہ ایسی کیا مجبوری تھی کہ آپ کو رات ساڑھے بارہ بجے گھر سے نکلنا پڑا اور آپ نے صبح کا انتظار بھی کرنا گوارہ نہ کیا؟ 


تیسرا سوال یہ کہ جب ان کا پیٹرول ختم ہوا تو انہوں نے خاوند کو فون کیا اور پھر پولیس والوں کو فون کیا۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ آپ اپنی لوکیشن پولیس والوں کو دیتی ہو اور پولیس سے پہلے وہاں مجرمان پہنچ جاتے ہیں؟ 


چوتھا سوال یہ کہ مجرموں کو گھنے اندھیرے اور اتنی بڑی موٹروے پر کیسے معلوم ہوا کہ ایک عورت کی فلاں جگہ پر گاڑی خراب ہے اور اس میں عورت بچوں کے ہمراہ ہے اور مرد بھی نہیں ہے حالانکہ یہ مجرمان کسی گاڑی میں بھی نہیں آئے؟


ایف آئی آر کی کاپی کمنٹ میں) جس کیمطابق شوہر اپنے دوست کے ہمراہ بیوی کیلئے روانہ ہوا اور جائے وقوعہ پر پہنچا اور بیوی کو جنگل سے آتے پایا۔کیسے؟سوال یہ کہ عورت کے پاس تو سب سے پہلے ڈولفن 

پولیس والے پہنچے تھے جن کے مطابق عورت اپنے بچوں کے ہمراہ جنگل میں لیٹی پائی گئی؟


دو مزید دلچسپ سوال یہ ہیں کہ واقعہ رات تین بجے پیش آیا تو اس واقعہ کے ہونے سے پہلے ہی جیو نے رات نو بجکر چھبیس منٹ پر یہ خبر کیسے دے ڈالی اور وہ بھی اس ٹائم پر جب پورا پاکستان خبروں کے چینل لگائے بیٹھا ہوتا ہے؟ عورت گھر سے رات ساڑھے بارہ بجے نکلی اور جیو نے تین گھنٹے پہلے ہی واقعہ بتا دیا۔وہ کیسے؟


 دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ جس مدعی نے ایف آئی آر درج کروائی اس نے اپنا ایڈریس اور فون نمبر بھی دیا جو کہ بعد میں دونوں جعلی نکلے۔ وہ کیوں؟ایک مرد کی بیوی کی بے حرمتی ہوئی اور وہ اپنی اہم معلومات ہی جعلی دے رہا ہے وہ کیوں؟ اس پورے واقعہ میں پولیس کیسے ذمہ دار ہوئی؟اگر نہیں ذمہ دار تو پھر صرف ن لیگی اور کرپٹ صحافی ٹولہ صرف اور صرف سی سی پی او لاہور کا استعفیٰ ہی کیوں مانگ رہے ہیں؟ اور وہ اس میں کیسے مجرم ہوئے؟


کیا انہیں بنیادی سوالات اٹھانا ہی مجرم کر گیا؟آئیے جانتے ہیں کیوں۔جناب عالی سی سی پی او لاہور وہ شخص ہیں جو اپنی ایمانداری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ اس شخص نے دو ایسے کام کئے جس کےبعد یہ سارا گھناونا کھیل شروع ہوا۔ پہلا یہ کہ انھوں نے کلثوم نواز کے بھانجے پر ہاتھ ڈالا۔دوسرا اس صاحب کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ انہوں نے پولیس میں کورٹ مارشل کا قانون لانا چاہا۔ اگر یہ قانون آجاتا تو ن لیگ کے لگائے تمام کرپٹ افسران کا کورٹ مارشل ہو جاتا اور یوں صرف دو سال میں پولیس کا ادارہ گندگی سے پاک ہوجاتالیکن یہ کیسے منظور ہوسکتا ہے ن لیگ کو پھر یہ کھیل شروع ہوا جس میں ٹارگٹ صرف و صرف سی سی پی او لاہور تھے۔ 


اب ایک اور ثبوت۔۔۔ اس واقعہ سے پہلے کیپٹن صفدر اور سی سی پی او لاہور کے مابین لڑائی ہوئی جس میں کیپٹن صفدر نے سی سی پی او کو دھمکیاں دیں لیکن سی سی پی او نے ایک نہ سنی پھر یہ واقعہ ہوا۔صرف جذبات سے نہیں دماغ سے کام لیں یہ بہت بڑا گورکھ دھندہ لگ رہا ہے وطنِ عزیز کے خلاف۔۔۔


معزز قارئین!! مجھے فخر ہے کہ میرے قارئین بہت شعور سمجھدار قابل ہیں جو سیاستدانوں اور انکے ترجمانوں کے مکر و فریب جھوٹ اور منافقت کو بخوبی جانتے ہیں اور مفاد پرست صحافی ٹولوں اور زرد صحافت کرنے والوں کے چہروں سے بھی خوب واقف رہتے ہیں میری دعا ہےکہ میرے وطن عزیز سے منافق، جھوٹے اور مفاد پرست منتخب نمائندگان اور زرد صحافی سے پاک کردے آمین ۔۔۔ اسلام زندہ باد، پاکستان پائندہ باد ۔۔۔!! 

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

:) :)) ;(( :-) =)) ;( ;-( :d :-d @-) :p :o :>) (o) [-( :-? (p) :-s (m) 8-) :-t :-b b-( :-# =p~ $-) (b) (f) x-) (k) (h) (c) cheer
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top