گزشتہ روزدوستوں کی دعوت پر اسلام آبادمیں مارگلہ کے پہاڑوں کی ڈھلوان پر واقع سیدپورویلج جانا ہوا،عظیم الشان میکسیکو کے قدیم طرز تعمیراورمنفردشان کے حامل مرکزی دروازہ سے داخل ہوتے ہی تاریخی عمارتیں،برگد کے پُرانے درختوں،پھولوں کی مہک،ہوا کے خوشگوار جھونکوں اورپہاڑ سے جُڑے ماحول نے اپنے سحر میں لے لیا،چونکہ بارش کے بعد موسم انتہائی خوشگوار تھاملکی وغیرملکی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بھی شہر اقتدار کے اس تاریخی اور خوبصورت گاؤں کودیکھنے آئی ہوئی تھی۔  | تحریر: قدیرحسین | سیدپورتاریخی لحاظ سے قدیمی دیہات میں شمار ہوتا ہے جبکہ اس کے فن تعمیر میں گندھارا،اشوکا،مغل اوریونانی تہذیبوں کے آثارنمایاں نظر آتے ہیں،اسی دیہہ کے باسی ہمارے میزبان دوست کے مطابق سیدپورکی بنیاد 1530ء میں مرزافتح علی خان نے رکھی تھی،ابتدائی طورپراسے فتح پورباؤلی کے نام سے جاناجاتا تھا، تاہم بعدمیں گگھڑ حکمران سارنگ خان کے بیٹے سیدخان گگھڑ کا یہاں سے گزر ہوا تواُسے یہ جگہ اتنی پسند آئی کہ اُس نے یہاں مستقل قیام گاہ کا فیصلہ کرلیااسی نسبت سے گاؤں کانام سیدپورپڑگیا،تزک جہانگیری میں بھی راولپنڈی کے مضافات میں سید پورکاذکرکیاگیا ہے۔
مشہورمغل سپہ سالار راجہ مان سنگھ کابل سے لشکرکشی کے بعدجب یہاں سے گزراتواُسے سیدپورکے فطری حسن نے ایسا سحر میں لیاکہ راجہ مان سنگھ نے کچھ دیرکیلئے یہیں پڑاؤڈال لیا اوراپنے قیام کویادگاربنانے کیلئے مقامی ہندوبرادری کی عبادت کیلئے کئی بلندچبوترے اورعمارات تعمیر کرائیں،بعد ازاں سکھ برادری نے بھی ایک گوردوارہ تعمیر کیاجس کیساتھ ایک عمارت موجود ہے جسے دھرم شالاکے طورپراستعمال کیاجاتا تھا،یہاں یتیم بچوں کورہائش،کھانا اور تعلیم کی سہولیات میسرتھیں۔
ہندوؤں،سکھوں کے دورکی مذہبی عمارتیں آج بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ ہیں،ساتھ ہی تین مینار والی مسجدبھی اپنی خوبصورتی میں کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ایک ہی جگہ پرمسجد،مندراورگوردوارہ کی موجودگی یہاں کے باسیوں کی مذہبی ہم آہنگی کی واضح مثال ہے۔
1947ء آزادی پاکستان کے بعدہندواورسکھ بھارت ہجرت کرگئے،ہمارے میزبان دوست کے مطابق مقامی لوگوں کی آپس میں اتنی ہم آہنگی تھی کہ تقسیم برصغیر کے وقت مقامی مسلمان ہندوؤں اورسکھوں کوبحفاظت ریلیف کیمپوں تک پہنچاکے آئے۔ سید پور کو 2006ء میں سی ڈی اے نے کثیرالثقافتی سیاحت کیلئے عمارتوں کی تزئین وآرائش ودیگر اقدامات کئے اوراسے ثقافتی ورثہ میں شامل کیاگیا،2008ء میں باقاعدہ ماڈل ویلج کادرجہ بھی دیا گیا۔ عمارتوں سے تھوڑااوپر صدیوں پُرانے برگد کے کچھ درخت آج بھی آب وتاب کیساتھ کھڑے ہیں،برگد کی چھاؤں تلے پہاڑکے بالکل ساتھ زندہ پیر کی بیٹھک سے منسوب جگہ پرحاضری دی،یہاں ہرجمعرات کوعقیدت منددیئے جلاتے ہیں،کچھ زائرین شام ڈھلتے دیئے روشن کررہے تھے،اسی احاطے میں مائی جی کے نام سے ایک قبر بھی منسوب ہے۔ ملکی وغیر ملکی سیاحوں کواچھے معیاری کھانوں کی فراہمی کیلئے اعلیٰ درجہ کے جدیدریستوران بھی کھولے گئے ہیں،شام ڈھلتے ہی پوراسیدپوربرقی قمقموں سے جگمگانے لگتا ہے،میزبان دوست کی جانب سے کھانے کی تواضع کے بعدجب سیدپورسے رُخصتی کا وقت ہواتومیں عجیب تذبذب کی کیفیت میں مبتلا ہوگیا،نہ جانے اس کیفیت کی وجہ قدرتی حُسن کی کشش تھی یااپنی روایات،اقدار اور قیمتی ورثہ سے دوری کا نہ بیان کیاجانے والا اثر تھا۔مصروف زندگی اور نہ ختم ہونے والے جھمیلوں نے شاید ان قیمتی اور حسین لمحوں میں وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ مجھے اپنے ہونے کا ایسا پرسکون احساس دلایا جسے لفظوں میں بیان کرنا میرے لئے شاید ممکن نہ ہوسکے۔سچ تو یہ ہے کہ زندگی کا حُسن آپ کے حقیقی ورثہ،قیمتی روایات اور قابل قدر اقدار کامتحمل ہوتا ہے جونہ صرف آپ کی شناخت بلکہ رشتوں کی قدرومنزلت اورمعاشرتی ہم آہنگی،پیار اورمحبت کوفروغ دینے کی وجہ ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس حسین وادی سے اب میں ادھورانہیں جارہا،یہ حسیں وادیوں کاتحفہ ہی تو ہے کہ آج میں مصروفیت سے بھری اورنہ ختم ہونے والے زندگی کے معاملات کوروک کر کچھ وقت کیلئے یہاں پڑاؤ کیاکربیٹھا،لمحہ بہ لمحہ مجھے چھوکر گزرنے والی ہواؤں کے حسیں جھونکوں اورمحسور کرنے دینے والی خوشبونے یہ سوچنے پر مجبورکردیا کہ ہماری رسم ورواج، اقدار اورخوبصورت ورثہ ہی تواصل پہچان ہے،ان سے ہر حال میں جڑے رہنے میں ہی ہماری بقا ہے۔۔۔کیا آپ بھی ایسا سوچتے ہیں؟!! |
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں