ٖ خود کشی کا بڑھتا رجحان، ذمہ دار کون ؟ وائس آف چکوال (VOC)

تحریر ۔ محمد نثار ٹمن 

۔۔۔۔۔۔۔۔ خود کشی قتل انا ترک تمنا بیراگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی تیرے نظر آنے لگے حل کتنے ۔۔۔۔۔۔۔


ہائے اوے میرے بچے، اوے  میرے بچے تو کیوں چلاگیا، میرے بچے ہمیں اکیلا چھوڑ کر کیوں چلا گیا، ہائے اوے میرے بچے آآآ

ہر سال دنیا بھر میں لگ بھگ  10 لاکھ افراد خودکشی کرکے اپنی زندگی دائو پر لگا دیتے ہیں، ہر چالیس سیکنڈ میں ایک زندگی خودکشی کی نذر ہوجاتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے  ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہر تیسرا فرد  ذہنی دباو میں مبتلا ہے اور پاکستان میں بھی صورتِ حال اس سے  مختلف نہیں ہے۔ اگر دیکھا  جائے تو  ڈپریشن عالمی سطح پر ایک نفسیاتی عارضہ بن چکی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین مردوں سے زیادہ خودکشی کررہی ہیں۔ (روزنامہ ڈان کراچی۔ 10 اکتوبر 2019ء)۔

بے شک اپنے خوابوں کا، اپنی خواہشوں کا، اپنے جذبات کا، اپنے احساسات کا، اپنے ارادوں کا، اپنے منصوبوں کا اور  اپنے فیوچر کا  اپنے ہی ہاتھوں سے گلہ گھونٹ دینا بہت  مشکل اور تکلیف دہ عمل ہے۔  یہ ہمارے ہی  ارد گرد کے  لوگ ہیں جو کسی نہ کسی ذہنی دباو، سماجی پریشر یا ڈپریشن، گھریلو ناچاکیاں، تعلیمی دباو، گھریلو تشدد، اور احساس  کمتری کے سبب خود کشی جیسے قبیح فعل کو اپناتے ہیں۔ ایسی کئی خبریں ہیں جو  روز ہماری نظروں سے گزرتی ہیں  لیکن  انکو  ان دیکھا کردیتے ہیں اور شاید آگے بھی  کرتے رہیں،  جب تک  انکی فہرست میں ہمارے اپنے  کسی پیارے کا نام شامل نہیں ہوگا۔ 

کسی شخص کا خود کو قصداً ہلاک کرنے کا عمل خود کشی کہلاتا ہے۔ اس کے پیچھے بہت سارے  محرکات کار فرما ہوتے ہیں لیکن ہم میں سے اکثر لوگ اسے بزدلی، نفسیاتی بیماری، پاگل پن، جلدبازی، ناکامی کا نام دے کر اپنا دامن بچا لیتے ہیں۔  

دنیا میں لاکھوں کروڑوں واقعات ہوتے ہیں جنکی وجہ سے لوگ خودکشیاں کرتے ہیں لیکن ان سب واقعات میں ایک بات یکسو ہوتی ہے کے کوئی بھی واقعہ  / حادثہ  ایک دم نہیں ہوتا، بلکل ایسے ہی  ہر خود کشی کے پیچھے کوئی نہ کوئی  قاتل ضرور ہوتا ہے۔ وہ قاتل ہم میں سے ہی کوئی ہوتا ہے کبھی استاد کی شکل میں تو کبھی سماج کے روپ میں۔ کبھی رشتے دار بن کرتو کبھی ماں باپ یا دوست بن کر۔ کبھی کوئی جیون ساتھی وبال جان بن جاتا ہے۔ تو کبھی عاشقی معشوقی کےلیے جان دینا پڑجاتی ہے۔ کبھی بھائیوں سے لڑائیاں تو کبھی بھابھیوں سے لڑائیاں، کبھین پسند رشتہ نہ ہونا وبال جان بن جاتا ہے تو کبھی زبردستی کی شادیاں جان لیوا ہوجاتیں ہیں،  یہاں تک کہ ہم اپنے رویے اپنے عمل سے کسی نہ کسی کو اس حد تک لے جاتے ہیں اوراسکو خود کشی پر اکساتے ہیں۔ بعد ازاں اسی شخص کو بزدلی  و ناکامی کے طعنے دے کر خود کو مطمئن کرلیتے ہیں۔ 


 دنیا بھر میں دوسرے تہواروں کیطرح ہر سال 10 ستمبر کو خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن بھی  منایا جاتا ہے جس میں خودکشی   سے بچاو کے بارے میں سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ خود کشی سے بچاو کے لیے اس کی وجوہات کا معلوم  ہونا بے حد ضروری ہے۔  کہ آخر وہ کونسی شے ہے جو انسان کو اس قدر مایوسی کی جانب دھکیل دیتی ہے کہ انسان خود ہی اپنی زندگی ختم کرنے کے درپے ہوجاتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے طبعی  ماہرین کے مطابق خودکشی کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں غربت، بیروزگاری، مایوسی، افسردگی، غصہ، افراتفری، پولیس تشدد، اعتماد کی کمی اور امتحان میں کم نمبر آنا شامل ہیں تاہم خودکشی کے بنیادی اسباب دو ہیں، مالی مسائل اور خاندانی مسائل،  آئے روز اخبار میں اس قسم کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں شخص نے بے روز گاری سے تنگ آکر خود کشی کرلی یا فلاں لڑکی نے اپنی نس کاٹ کر خود کشی کرلی، فلاں نے گھریلو ناچاکی کی وجہ سے نہر میں چھلانگ لگا دی وغیرہ وغیرہ۔ 

یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی انسان ایک دم سے اتنا بڑا قدم نہیں اٹھاتا ہے، جبکہ اسکو پتہ ہوتا ہے کہ اس قدم سے میری موت یقینی ہوجانی ہے۔  بلکہ وہ آہستہ آہستہ اس جانب بڑھتا ہے باقاعدہ سوچ کر پلان کرکے اس فعل کو انجام دیتا ہے۔ خود کشی کی جانب مائل ہونے والے شخص میں چند علامتیں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں جن میں ابتدائی علامات زندگی کے بارے میں اس کے رویے میں تبدیلی نظر آنے لگتی ہے۔  ایسا شخص یا تو ضرورت سے زیادہ پْرجوش نظر آنے لگتا ہے یا پھر خطرناک حد تک مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق  ایسے شخص سے گفتگو کرکے اس کے اندر موجود بھڑاس، غم و غصے کو نکلنے کا موقع دینا چاہیے۔ ایسے وقت میں اس شخص کو کسی دوست  کی ضرورت ہے جو فقط اسے سنے اور تب تک سنتا رہے جب تک وہ اپنے اندر کی ساری بھڑاس نکال نہ لے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا، ارشاد ربانی ہے ’’اور ہم ضرور تمھیں خوف وخطر،فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے آزمائیں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیںاور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔انہیں خوشخبری دے دو۔ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایا ت ہوں گی‘‘۔(البقرہ) ۔

زندگی کے کسی بھی حصے میں اگر آپ  پریشان ہیں یا ذہنی تناو کا شکار ہیں تو ان چند چیزوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں، انشاء اللہ آپ ایک بار پھر سے زندگی کے جانب لوٹ آئیں گے اور یاد رکھیں زندگی صرف اور صرف ایک بار ملی ہے، دوبارہ نہیں ملے گی۔ اگر آپ زندگی کی قدر کریں گے ، زندگی سے پیار و محبت کریں گے تو یقینا زندگی بھی کبھی آپکو مایوس نہیں کرئے گی :۔ 

 تلاوت قرآن کو اپنا  معمول بنا لیں۔ 

صوم صلوٰۃ کی پابندی شروع کریں۔ 

 چہل قدمی یا ورزش شروع کردیں۔ 

 کچھ وقت گھروالوں کے ساتھ لازمی گزاریں

 مثبت سوچ

 منفی محفلوں سے دوری اختیار کریں۔ 

 کتابوں کو اپنا ساتھی بنا لیں، اچھی اچھی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیں۔ 

 گیموں میں اپنے آپکو مشغول کرلیں تاکہ آپکا دماغ کسی اور منفی سوچ سے بچ سکے ۔ 

ان چیزوں پر عمل کرکے کسی بھی قسم کے ڈپریشن سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ یاد رکھیے خود کشی کرنا شاید آسان حل لگتا ہو لیکن یہ کسی بھی مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہے۔ یہ کئی دیگر مسائل کی ابتدا ہے لہذا اپنی زندگی کی قدر کیجیے، اپنے سے جڑے رشتوں کی قدر کیجیے۔ اپنے ذہن کو منفی سوچوں کی آماجگاہ نہیں بننے دیجیے کسی بھی پریشانی کا آغاز منفی سوچ سے ہی ہوتا ہے اور اگر آپ والدین ہیں تو اپنی اولاد کی ضروریات کو سمجھیے، ان سے گفتگو کیجیے ، ان کے مسائل سنیے، انہیں وقت دیجیے ۔ انہیں اپنے فیصلوں میں ایک حد تک آزادی دیجیے تاکہ وہ گھٹن محسوس نہ کریں۔ انکے دل کی آواز سنیں، انکی حوصلہ افزائی کریں نہ کہ گوصلہ شکنی کریں۔ اللہ تعالی ہم سب کو ایمان پر موت نصیب فرمائے اور مرتے دم ہماری زبانوں پر کلمہ طیبہ جاری ہو۔ آمین


۔۔۔۔۔۔تم نے کہا تھا میں تیری کشتی میں بوجھ ہوں ۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ ۔۔۔۔۔۔ 


0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top