قارئین کرام! انسان جسے اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات بنایا،جسکے آگے فرشتوں کوسربسجود ہونے کا حکم دیا اورابلیس مردود کو اس لئے شیطان قراردیا کیونکہ اُس نے اشرف المخلوقات کے آگے جھکنے سے انکارکردیا تھا۔ اسی اشرف المخلوقات کو راہ راست اور صراط مستقیم پر لانے کیلئے خداوند قدوس نے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزارپیغمبرانؑ بھیجے اور یہ سلسلہ نبی آخرالزماں،رسول خُدا، حضرت محمد مصطفیﷺپر اختتام پذیر ہوا۔ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ رب العزت نے ”یعلمھم الکتاب والحکمۃ“کہہ کر حضور اکرم ﷺ کی شان معلم بیان کی جبکہ خود حضور پُرنورﷺ نے فرمایا کہ ”انما بعثت معلما“کہ میں اُستادبنا کر بھیجا گیا ہوں۔نبی کریم ﷺ نے عرب معاشرہ جوآپؐ کی بعثت سے قبل تاریکی کے عمیق گہرائیوں میں ڈوبا تھا اسکو اپنی تعلیم سے منور فرمایا اور ایسی تعلیمات دیں جوتاقیامت نہ صرف دنیابلکہ آخرت کی زندگی کیلئے بھی مشعل راہ ہیں۔آپؐنے ریاست مدینہ کاوہ نظام تشکیل دیا کہ جس کی نظیر پوری تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ اسلام نے اُستاد،معلم کو وہ مقام ومرتبہ عطاکیاہے کہ جس کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ فرماتے ہیں کہ ”جس نے مجھے ایک لفظ بتایا وُہ میرا آقا قرار پایا“ گزشتہ دِنوں پاک پبلک سکول ہرڑ چوک اور الائیڈ سکول ڈھڈیال کے پرنسپل میرے بہت ہی قابل احترام سرمشتاق صاحب کی سوشل میڈیا (فیس بُک) پرڈی چوک اسلام آباد اُساتذہ کے احتجاجی دھرنے میں شامل تصویرنظر سے گزری،وہی خوبصورت چمکتا اور بارُعب چہرہ،ہنس مُکھ اورہشاش بشاش دیکھتے ہی ماضی کے حسیں لمحات، بیسویں صدی کے اوائلی سالوں میں کھوگیا،انیسویں صدی مکمل ہونے کو تھی اوربیسویں صدی پاک پبلک سکول ہرڑچوک کہ جسکی بنیاد کو چند سال ہی ہوئے تھے کے تابناک اوردرخشاں مستقبل کی منتظر تھی۔ راقم بھی بچپن کے اوائل میں خوب مگن تھے،اپنے تایازاد بھائی چوہدری فخر الاسلام عرف ظہیر عباس جو کہ اس وقت دیارغیر متحدہ عرب امارات میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں کیساتھ مل کرچھوٹی چھوٹی شرارتیں معمول تھا،اُس وقت سرال تا منگوال سنگل روڈ تھا جس پر ٹریفک بہت کم ہوتی،کوئی گاڑی اگر ڈھوک الفو اڈا کے پاس ہوتی تو ہمیں اپنے گھر سے نظر آجاتی تھی اور ہم نشانہ لگا کے بیٹھ جاتے اور موقع ملتے ہی اچانک گاڑی کے سامنے آنا اور شرارتیں کرنامعمول تھا،آج تحریر کرتے ہوئے ہی بھی چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اورکچھ افسردگی ہے۔خیر بچپن کی اٹھکیلیاں جاری ہی تھیں کہ اچانک والد بزرگوار کے ننھیالی گاؤں چکوال کے خطہ لنڈی پٹی، لنگاہ سے میرے چچا جان چوہدری امجد نواز لنگاہ واہلخانہ سرال آئے تووالد صاحب کو مشورہ دیا کہ ڈاکٹرکو(راقم کوآج بھی گاؤں میں ڈاکٹر کے نام سے ہی پکاراجاتا ہے)پاک پبلک سکول ہرڑ چوک میں داخل کراتے ہیں۔والد صاحب نے حامی بھرلی پھر کیا تھا اگلے روز سکول پہنچ گئے داخلہ کے بعد پہلے روز تورورو کے محترم خواتین اُساتذہ کی بڑی منتیں سماجتیں کیں کہ ہمارا یہاں جی نہیں لگنے والا!!ہمیں اپنے مسکن چھوڑآئیے، خیرچچا بشارت آف فریدکسرجو سکول میں چوکیدار کے فرائض سرانجام دیتے تھے، کبھی کراہ بیلوں اور کبھی تیتروں کی باتیں سُنا کر بہلا دیا کرتے،چند دنوں بعد ہی میرے بہت ہی قابل احترام اُساتذہ میں سے ایک سرملک خالد صاحب آف واہڈرے کے صاحبزادے ملک رئیس اُن کے بھتیجے ملک نعیم،واہڈرے ہی سے محمد حسنین،ساجدمحمودودیگر،سرال سے چوہدری جاوید اقبال،محمد اسماعیل اور چند دوستوں کیساتھ ایسا گروپ تشکیل ہوا کہ پھر توہنسی خوشی صبح صبح تیار چچامہرخان آف واہڈرے کی گاڑی کے انتظا رمیں کھڑے ہوتے،یہاں چچامہرخان واہڈرے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں،اُس وقت پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے ٹیوٹا گاڑیوں کا عروج تھا اور چچامہرخان ڈرائیور حضرات میں سب سے زیادہ مقبول تھے اور غصہ ایسا کہ طلباء وطالبات کو ایسے کنٹرول کئے ہوئے تھا کہ اتنے ہم اُساتذہ کرام سے نہیں ڈرتے تھے،ہرکوئی صبح اپنے اپنے گھر کے باہر بروقت کھڑا ہوتااورچھٹی کے وقت بھی چچاجی کے ہارن بجاتے ہی سب فوراً گاڑی کے پاس پہنچ جاتے،روزانہ کسی نہ کسی بچے کے کان ضرور کھینچتے تھے۔خیر بات ہورہی تھی سرمشتاق صاحب کی تومجھے آج بھی یاد ہے باقاعدہ ہرماہ ایک ایک کلاس میں جاکربچوں کاامتحان لیتے،اُس زمانہ میں پاک پبلک سکول ہرڑچوک کاپورے ضلع چکوال میں اپنی تعلیمی خدمات کے حوالے سے صف اول میں شمار ہوتاتھابلکہ آج بھی سرمشتاق صاحب نے سکول کی تعلیم کا معیار برقرار رکھا ہواہے اور اسی معیار کی بدولت الائیڈ سکول ڈھڈیال کی بنیاد بھی رکھی،راقم سمیت اُس وقت کے طلباء وطالبات کی تعلیمی صلاحیتوں کا اتنا چرچہ ہواکہ کچھ ہی عرصہ میں ہمارے علاقہ سرال، جیٹھل،واہڈرے،ڈھوک الفو،مولے،جوراں،فرید کسر،کوٹ اقبال،فم کسر،سرکال کسرجوکہ ضلع چکوال وراولپنڈی کی بارڈرلائن پر واقع ہے سے لیکر کالس راجگان جوکہ ضلع جہلم کی باؤنڈری لائن پر واقع ہے،چک ملوک،مونا،دمال،جھالے،میروال،مسوال،کسراں،پادشہان،چوہان،تک طالبعلم حصول علم کیلئے پاک پبلک سکول ہرڑچوک آتے،آج بھی چند ہم جماعت دوستوں سے سکول کے موضوع پر بات ہوتی ہے توسب فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہم پاک پبلک سکول کے طالبعلم رہے ہیں۔بذات خود آج بھی فخر محسوس کرتا ہوں کہ 20برس قبل پاک پبلک سکول ہرڑچوک کی اسمبلی میں بچوں کو جواسلامی دعائیں یادکرائی جاتیں تھیں آج بھی اُسی حافظہ کیساتھ محفوظ ہیں۔تعلیم کا معیار اتنا اچھا تھا کہ راقم جیسے نالائق بچے بھی پوزیشن ہولڈر رہے،سکول کی تقاریب تقسیم انعامات آج بھی یادہیں،تقاریری مقابلوں میں پاک پبلک سکول ہرڑ چوک کے طلباء وطالبات کاکوئی ثانی نہیں تھا،طلباء کی جسمانی صحت کی نشونما کیلئے بھی باقاعدہ پی ٹی سر روزانہ سکول آتے اوربریک یا چھٹی کے وقت جسمانی ورش کراتے،اُساتذہ کرام میں جھالے سے میرے ہم جماعت دوست قدیر عامر کے بڑے بھائی سرعامر،سرنویداقبال(مونا)،سرمحمد اقبال ہرڑ،سرتصورعباس(نارنگ سیداں) اور زیادہ تعدادخواتین اُساتذہ پر مشتمل تھی،اُساتذہ کرام طالبعلم کی ماہانہ کارکردگی باقاعدہ والدین کوبھیجتے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہرادارہ کی بنیاد ہی اُس کے مستقبل کا تعین کرتی ہے،پاک پبلک سکول ہرڑ چوک سے فارغ التحصیل طلباء وطالبات آج زندگی کے ہرشعبہ میں اپنی خدمات نمایاں سرانجام دے رہے ہیں،راقم نے جماعت پنجم تک علم کی پیاس پاک پبلک سکول ہرڑ چوک سے بجھائی۔بعد ازاں جماعت ششم سے یہ سفر سرملک خالد (واہڈرے)جوگورنمنٹ ہائی سکول جیٹھل کے پرنسپل تھے سے اچھے مراسم ہونے کی وجہ سے اُن کے زیر سایہ شروع ہوا،لیکن پاک پبلک سکول ہرڑ چوک سے جُڑی یادیں اور تعلیمی بنیاد آج بھی ہرشعبہ زندگی میں میرے ہمدم ہیں،اللہ تعالیٰ اس ادارہ کو دِن دوگنی رات چوگنی ترقی عنایت فرمائے،آخر میں سر مشتاق حیدر سمیت تمام اُساتذہ کرام خصوصاً خواتین اُساتذہ جن کے نام لکھنے سے قاصر ہوں کوخراج عقیدت و سلام پیش کرتا ہوں۔ بہت سا وقت بہت تیزی کے ساتھ گزر گیا مگر وہ یادیں آج بھی جیسے ایسے تازہ کہ گویا کل ہی کی بات ہو، وہ اسکول وہ اساتذہ جیسے سب ویسے کا ویسا ہو، یہ وہ لمحے تھے کہ جن کی وجہ سے آج ہم اپنے قلم کو جنبش دینے کے قابل ٹھہرے اپنے ٹوٹے پھوٹے خیالات کو جمع کرنے کا ہنر اسی ادارہ اور اسکے اساتذہ کی دی گئی تعلیم و تربیت سے آیا آخر میں دل سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ کریم جن لوگوں نے ہم پہ محنت کی اور اس قابل کیا تو انکی دنیا اور آخرت کو کامیاب کردے (آمین) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ |
---|
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں