فرانس کے گاؤں میں ایک لوہار رہتا تھا۔ وہ بادشاہ کی طرح امیر بننا چاہتا تھا،مال و دولت جمع کرنے کے لئے اس نے اپنا خاندانی پیشہ ترک کرکے چوری کا پیشہ اپنالیا۔ اس نے سوچا لوہاری پیشے میں رہوں گا تو کبھی امیر نہیں بن سکتا ہوں۔ابتداء میں اس نے چھوٹی موٹی چوریاں کیں ، لیکن کحچھ ہی عرصے کے بعد وہ اس قدر تیز ہوگیا کہ اس کا نام ہی "چالاک چور" پڑگیا۔اس نے چالاکی اور ذہانت کی وجہ سے محل کا آدھا خزانہ بھی چوری کرلیاتھا۔ اور دوسری جانب بادشاہ بہت زیادہ فکرمند رہنے لگا۔اُس نے ایک دن اپنے مشیروں سے چور کو پکڑنے کے بارے میں مشورہ کیا۔ مشیروں نے بادشاہ کو اسکے لیے تین ترکیبیں بتائیں:۔
 | تحریر:محمدنثارٹمن |
نمبر 1 ۔ اس ترکیب کے مطابق بادشاہ نے محل میں ناچ گانے کی محفل منعقد کروائی اور تمام شہریوں کو دعوت عام دی گئی۔ چالاک چور بھی ان میں موجود تھا۔ اُسے بڑا تعجب ہوا کیونکہ وہ بادشاہ کو کنجوس اور بخیل سمجھتا تھا۔ اسے یہ دیکھ کر اور زیادہ حیرت ہوئی کہ فرش پر ادھر اُدھر سونے کے سکّے بکھرے ہوئے تھے ۔ چور نے جوتے کے نیچے ایک مقناطیس لگایا اور سکوں پر ناچنے لگا۔ اس طرح ایک ایک کرکے تمام سکّے اس نے جوتوں سے چسپاں کرلیے اور موقعہ ملتے ہیں نو دو گیارہ ہوگیا۔بادشاہ مشیروں پر بے حد غصہ ہوا مگر انہوں نے سمجھایا کہ دوسری ترکیب میں چور ضرور پکڑا جائے گا۔ نمبر 2 ۔ اس ترکیب کے مطابق بھی محل میں ناچ گانے کی محفل سجائی گئی، تقریب ختم ہونے کے بعد محل میں چور کو نیند نہ آئی۔ وہ ملکہ کے کمرے میں داخل ہوا ور آہستہ سے بولو " ملکہ عالیہ کیا آپ سوگئی ؟ ملکہ یہ آواز سن کر چونک پڑی۔ "تم کون ہو؟ چور نے کہا "میں تو صرف آپکی خوبصورتی کی تعریف کرنے آیا ہوں"۔ ملکہ نے سوچا ہو نہ ہو یہی وہ چالاک ہے۔ ملکہ نے کہا " تم نے میری تعریف کی اسلیے میں تمہاری پیشانی کا بوسہ لےکر تمہارا احسان اتارنا چاہتی ہوں، یہ کہہ کر ملکہ نے چور کی پیشانی کابوسہ لیا اوربوسہ لیتے وقت چور کی پیشانی پر ایک مخصوص رنگ کا نشان بنا دیا۔ ہنسی خوشی واپسی پر جب چور نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی تو پیشانی پر مخصوص رنگ کا نشان نظر آیا۔ وہ ساری چالاکی سمجھ گیا۔ چور نے وہ مخصوص رنگ کا ڈبہ چرایا اور محل میں جتنے بھی مہمان سو رہے تھے سب کی پیشانیوں پر ویسے ہی نشانات بنا ڈالے۔ ترکیب کے مطابق صبح ہوتے ہی محل کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے تاکہ کوئی بھاگ نہ سکے۔بادشاہ اور کابینہ جب محل میں پہنچے تو تمام مہمانوں کی پیشانیوں پر مخصوص رنگ کے نشانات دیکھ کر انہیں بہت حیرت ہوئی۔ اسطرح چور کو پکڑنے کےلیے دوسری ترکیب بھی فیل ہوگئی تھی۔ بادشاہ کا غصہ دیکھتے ہی ایک بار پھر مشیروں نے کہا "حضور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، تیسری ترکیب سے چور ہر حالت میں پکڑا جائے گا"۔ نمبر 3 ۔ اس ترکیب کے مطابق ملکہ کے کمرے میں ایک تہہ خانے بناکر اسے اس طرح ڈھانک دیا گیا کہ کسی کو اس کا پتہ تک نہ چل سکے۔ کچھ دنوں بعد محل میں رقص و سرود کی محفل کروائی گئی۔ رات دیر تک پروگرام چلتا رہا، حتیکہ تمام لوگ وہی سو گئے، لیکن اس بار بھی چالاک چور کو نیند نہیں آرہی تھی ؟ وہ پھر سے ملکہ کے کمرے میں داخل ہوا اور داخل ہوتے ہی تہہ خانے میں گر گیا۔ اس نے باہر نکلنے کی لاکھ کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ ملکہ نے یہ آواز سنتے ہی چلانا شروع کردیا "چور چور"، ملکہ کا شور سنتے ہی تمام وزیر و مشیر، نوکر چاکر چور پکڑنے کے لئے کمرے میں داخل ہوئے اور سارے ہی دھڑم سے تہہ خانے میں جاگرے۔جب بادشاہ اور اسکی کابینہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ تہہ خانے میں بہت سے لوگ گرے ہوئے ہیں ۔ یہ پتہ لگانا مشکل ہوگیا کہ ان میں اصل چور کون ہے؟ بادشاہ یہ ترکیب بھی فیل ہوتے دیکھ غصے سے سرخ پیلا ہوگیا۔ اور کہا " "تم میرے مشیر بننے کے لائق نہیں ہو"۔ بادشاہ نے تمام سے مخاطب ہوکر کہا " آپ سب مَیں ایک چور بھی موجود ہے، جس نے میری تمام حکمت عملیوں کو مات دے کر اپنی ذہانت ثابت کر دی ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ سامنے آئے تاکہ میں ملکہ کی شادی اس سے کرواسکوں"۔ اعلان سنتے ہی بیسوں لوگ آگے بڑھے۔بادشاہ کے پوچھنے پر ملکہ نے کہا کہ "میں چور کی شکل و صورت نہیں جانتی مگر اس کی آواز کو پہچان سکتی ہوں "۔ چند لمحے بعد ملکہ نے چور کی آواز سنتے ہی پہچان لیا اور کہا کہ "ابّا جان یہی وہ آدمی ہے"۔ بادشاہ نے کہا "اگرچہ تم سزا کے مستحق ہو، پھر بھی وعدے کے مطابق شادی ضرور ہوگی۔ راجکماری سے شادی کے بعد لوہار چور کی بقیہ زندگی سکون سے گزری۔ حلقہ NA -65 ، پی پی ۔ 24 کے زیر سایہ، تحصیل تلہ گنگ کے نواحی گاوں کھوئیاں میں گزشتہ ماہ سے ہونے والی وارداتوں کے بعد متاثرہ گاوں کے ساتھ ساتھ ملحقہ دیہی علاقوں میں بھی انتہائی خوف وحراس ، بے چینی، مال و دولت کے عدم تحفظ جیسی کیفیات پائی جارہی ہیں۔ گزشتہ ماہ سے پہلے تحصیل تلہ گنگ کے ان علاقوں میں نصف صدی سے ایسا ماحول پیدا نہیں ہوا، جس نے ایک ہی ماہ کے اندر پورے علاقے کو جان و مال کے لالے ڈال دئیے ہوں۔ہزاروں کی آبادی والے پرامن اور پر سکون علاقے میں کسی غریب اور امیر کی جمع پونجی محفوظ نہیں رہی، لوگ راتوں کو جاگ کر ، پہرے دیکر اپنے گھروں کا تحفظ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ایک ماہ کے اندر ہی ڈھوک بن ماصم اور اندرون کھوئیاں سے لاکھوں روپے کی نقدی اور زیورات چوری ہوچکے ہیں، چالاک چوروں نے غریب اور کمزور عوام کو گھروں سے سڑکوں پر لاکھڑا کیا ہے۔ علاقے کے رہائشیوں نے چالاک چوروں کو پکڑنے کےلیے بہت ترکیبیں کی، لیکن چالاک چور انتہائی صفائی کے ساتھ ، مطلوبہ گھروں کا صفایا کرکے نو دو گیارہ ہوجاتے رہے۔ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا پر بھی علاقائی نوجوانوں، شوشل ورکرز اور صحافیوں نے چوری کی وارداتوں کو ہائی لائٹ کیا اور متاثرین کی آواز بنے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس سارے معاملے میں انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، انتظامیہ نے مکمل خاموشی اختیار کرکے اپنے ووٹرز ، سپورٹرز اور علاقائی نرم گوشہ رکھنے والے افراد کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ سیاسیی پردھان اور الیکشن کے جلسوں، ریلیوں اور محفلوں میں سب کحچھ ٹھیک کردینے والے سیاسیی کولو ماہا ، کی ایکسپائری تاریخ، الیکشن نتائج تک ہوتی ہے۔ متواتر چوری کی وارداتوں نے علاقہ مکینوں کے سامنے سیاسیی لیڈران، علاقائی ملک و سردار اور نام نہاد کمزور و لاچار انتظامیہ کے کچے چھٹے کھول کر رکھا دئیے ہیں۔ لگاتار وارداتوں کے باوجود قانون نافذ کرنے والوں نے اپنے کانوں میں روئی اور آنکھوں کو کبوتر کیطرح بند کیا ہوا ہے۔ علاقے کے لوگوں نے ہر فورم پر چوری برآمدگی کےلیے کوشش کی، ہر سیاسیی کا دروازہ کھٹکایا، حکومتی جماعت مسلم لیگ ق سے لیکر تمام سیاسیی جماعتوں کے لیڈران تک رسائی حاصل کی، سابق ایم این اے سردار منصور حیات، سابق ایم این اے سردار ممتاز خان اور سیاسیی و سماجی لیڈران نے متاثرین کے ساتھ کھڑے ہونے، چوروں کے پکڑے جانے تک سکون سے نہ بیٹھنے ، چوروں کو سزا دلوانے اور چوری کا مال برآمد ہونے تک چین سے نہیں بیٹھنے کے وعدے بھی کرڈالے۔ لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ چوری ، ڈکیتی کی وارداتوں میں کمی واقع نہ ہوسکی۔ جولائی 2018 میں اقتدار میں حکومت کی مضبوط اتحادی جماعت، مسلم لیگ ق بھی علاقے کے امن کو بحال کرنے، چوروں کو پکڑوانے، سزا دلوانے، چوری برآمد کروانے کے ساتھ ساتھ کمزور اور لاچار عوام کا ساتھ نبھانے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے۔ جب ان سیاسیوں کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں، اور انکے سیاسیی کاموں میں کوئی عام شہری رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو راتوں رات ڈی پی او، ڈی ایس پی اور ایس ایچ اوز کو فون کالز کرکے معاملات سلجھانے کےلیے احکامات جاری کردئیے جاتے ہیں۔ لیکن ہزاروں کے آبادی والے علاقے کےلیے غیر سنجیدہ رویہ عوام کے ووٹ کی توہین کے مترادف ہے۔ یہاں عوام الناس اپنی مدد آپکے تحت سوشل میڈیا پر متاثرین کےلیے چندہ جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں، علاقائی ویلفئیر تنظیمیں لوگوں سے امداد جمع کرکے متاثرین کی ہر ممکنہ مدد کرتے نظر آرہے ہیں، لیکن وہ حکمران جماعت نظر نہیں آرہی ہے جس نے عوام سے ووٹ لیکر اسمبلی میں جگہ بنائی، وہ عوامی نمائندہ نظر نہیں آرہا جس نے کہا تھا کہ وہ عوام کےلیے وزیراعظم سے بھی ٹکر لیکر علاقے کےلیے کام کرئے گا ، وہ سیاسیی چھو منتر والے اداکار نظر نہیں آرہے جنہوں نے تھانہ کچری سسٹم کو صاف شفاف تحقیقات کرنے کا پابند کرنا تھا۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ایسے سیاسیی افراد کا محاسبہ کریں، انکو ٹف ٹائم دیں، اپنی قیمت صرف چند سیلفیوں کے برابر مقرر مت کریں، دو چار جلسوں میں سٹیج کی زینت بننے کے بعد انکے لیے غلام مت بنیں۔ پاکستان میں سب سے بڑی طاقت عوام کی طاقت ہے، عوام سب کحچھ کرسکتی ہے، ابھی بھی وقت ہے، انکو سمجھیں، انکا محاسبہ کریں، ان کو پرکھیں، انکو آزمائیں، تاکہ انکی اصلیت آپکے سامنے عیاں ہوسکے۔ اگر ابھی بھی سیاسیوں کی شطرنجی چالوں، مکاریوں، چالاکیوں، فراڈوں، دھوکوں، فریبوں اور یو ٹرنوں کو نہیں سمجھیں گے تو پھر بادشاہ سلامت کیطرح ان چوروں کے آگے ہتھیار ڈالنے ہونگے، اپنی ہار تسلیم کرنی ہوگی، اور اپنی باقی جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ |
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں