چودہ اگست 1947 ہمارے بزرگوں کی قربانیوں سے ایک اسلامی فلاحی ریاست کی تعمیر نوجوانوں کی زمہ داری کیا قائداعظم کا خواب پورا ہوا King khan نوجوان نسل کو اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ مستقبل میں اس عظیم مملکت کی باگ ڈور انہوں نے سنبھالنی ہے انہوں نے خود کو اقبال کے شاہین ثابت کرنا ہے۔ قائد کے ایمان‘ اتحاد اور تنظیم کے درس کو ہر لمحہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی شور شرابے نہیں سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم نے اپنی آزادی کی حفاظت کس طرح کرنی ہے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر کس طرح گامزن کرنا ہے۔ ہم نے ثابت کرنا ہے کہ ہم ہجوم نہیں ایک باشعور اور عظیم قوم ہیں‘ جسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔ آزادی کا اظہار زندہ قوموں کی علامت ہے یہ ملک ہم سب کا ہے۔ ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں ہم سب جواب دہ ہیں ہم سب نے مل کر بھائی چارے ‘ اتحاد ‘ ایمان اور تنظیم کے ساتھ اپنے وطن کی آزادی کی حفاظت کرنی ہے۔ خصوصاً نوجوان اس وطن کا ہراول دستہ ہیں‘ انہیں اپنے رویے سے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ ایک سنجیدہ اور باوقار قوم کے باشعور شہری ہیں۔ آزادی ایک عظیم نعمت ہے اور آزای کی زندگی کا ایک دن غلام کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے ۔ شاید عقیدے کے بعد آزادی ہی ایک ایسی چیز ہے جس کی خاطر انسان اپنا سب کچھ قربان کر سکتا ہے۔ اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی ملک بھر میں ہر طرف سبز ہلالی پرچم دیکھنے کو ملتے ہیں اگر آج ہم آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں تو ان شہیدوں کی وجہ سے جنہوں نے اپنا کل ہمارے آج کے لئے قربان کیا۔ پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں شہداء کا خون شامل ہے۔ ایک آزاد مملکت کے لئے مسلمانوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ تاریخ گواہ ہے بھارت سے آنے والی ٹرین مسلمانوں کی لاشوں سے بھری ہوئی لاہور پہنچی تو بھی یہاں کے مسلمانوں نے پاکستان میں رہنے والے ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا۔ہندوستان میں آج بھی مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر بھی ہندوستان کے مظالم کی داستانوں میں سے ایک داستان ہے۔ آج جب ہم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت دیکھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ آزادی ایک نعمت ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہم پر جو احسان کیا ہے ہم وہ احسان کبھی نہیں اتار سکتے مگر ہم پاکستان کو جناح کا پاکستان بنا کر قائد اعظم محمد علی جناح کی روح کو تسکین پہنچا سکتے ہیں۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے 11اگست 1947 کی تقریر میں واضح کردیا تھا کہ لوگ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں اور کسی کے مذہب سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ہوگا۔آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔" بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست کی تقریر سے اقتباس آزادی ایک بڑی نعمت ہے اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز نہیں۔ آزادی کا دن منانا بھی ہم سب پر لازم ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی یوم آزادی پاکستان جوش و جذبے سے مناتے ہیں کیونکہ یہ جناح کا پاکستان ہے جہاں تمام مذاہب کے ماننے والوم کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور اس کی حفاظت ہماری اجتماعی اور قومی ذمہ داری ہے۔ آزادی کی قدر و قیمت مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں سے پوچھنی چاہیے جو بھارت اور اسرائیل کے ظلم کا شکار ہیں۔ آزادی کا جشن مناتے ہوئے ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ پاکستان کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش کرینگے، وطن عزیز کی سالمیت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے اور وقت آنے پر پاک فوج، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شانہ بشانہ کھڑیں ہوں گے جو دہشتگردوں کے خلاف سربکف ہیں۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ اپنے ملک کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔آزادی ایک لفظ نہیں، ایک عظیم نعمت ہے۔ زندگی کا اصل احساس ہے۔ جو قومیں اس نعمت کی قدر نہیں کرتیں ان کا نام صفحہ ہستی سے مٹا جاتا ہے۔ 14 اگست کا دن ہمیں اس کا احساس دلاتا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے نصف صدی تک حصول پاکستان کیلئے کن کن جانی و مالی قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا جن کی بدولت ہم آج آزاد وطن میں پر سکون زندگی گزار رہے ہیں۔۔ علامہ اقبال کا خواب تو قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنا کر شرمندہ تعبیر کر دیا تھا کیا قائداعظم کا خواب ملک میں جمہوری نظام کا ہم پورا کر سکے ہیں۔ جب یہ سوال کیا جائے تو اس کا جواب ستر سال سے پاکستان میں رہنے والے پیدا ہونے والے لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ جمہوریت اُس نظام کو کہتے ہیں جس میں محکوم اپنے حکمرانوں کو اور ووٹر اپنے نمائندوں کو کنٹرول کر سکیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی جمہوریت کیا ہے؟ حقیقی جمہوریت وہ ہوتی ہے جس میں ووٹروں کا اِختیار نمائندگان کے اوپر ہو۔ کیا ہمارے ملک میں محکوم عوام اپنے حکمرانوں اور نمائندوں پر کنٹرول رکھتی ہے؟ آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ سو یہ نظام جمہوریت نہیں ہے۔ فقط انتخابات کا ڈھونگ رچانے کا نام جمہوریت نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں جمہوریت کی تعریف بدل چکی ہے۔ لوگوں کو اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔ اہل فکر و نظر اندھیرے سے نکلیں، اَینکرز اور لکھنے والے غور کریں۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت بدترین نظام حکومت ہے، لیکن ان نظاموں سے بہتر ہے جو اب تک آزمائے جا چکے ہیں۔ یہ الفاظ سر ونسٹن چرچل کے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد برطانوی وزیر اعظم رہے۔ تب سے آج تک اس قول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور جمہوریت کی اچھائیوں برائیوں کو پرکھنے کے بعد بھی دنیا میں سب سے مقبول نظام حکومت جمہوریت ہی ہے۔ پاکستان میں بھی ہر سیاسی جماعت جمہوریت کے گن گاتی ہے، خود کو جمہوری نظام کا علمبردار کہتی ہے اور اس مقصد کے لیے دی جانے والی قربانیوں کا ذکر فخر سے کرتی ہے۔ آخری فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف تو اتنے جمہوریت نواز نکلے کہ انہوں نے سویلینز کی ’جعلی جمہوریت‘ کو اصل سے بدلنے کا بیڑا اٹھا لیا، اور اس کوشش میں سبھی جمہوری جماعتوں کے بہت سے رکن بھی ان کے ساتھ ہو گئے۔ کیا مشرف دور میں اصل جمہوریت آئی؟ کیا فروری 2008 کے انتخابات کے بعد کا زمانہ جمہوری کہلا سکتا ہے؟ یا پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے جانے کے بعد 2018 کے الیکشن کو بھی صاف شفاف انتخابات کہا جاسکتا ہے کیا پاکستان میں کبھی بھی جمہوریت رہی؟ اقوام متحدہ جمہوریت کی تعریف یوں کرتی ہے کہ یہ خود میں ایک منزل نہیں بلکہ مسلسل سفر کا نام ہے جو افراد اور اقوام کو معاشی اور سماجی ترقی کی راہ پر لے جاتا ہے، اور بنیادی حقوق اور آزادیوں کا احترام سکھاتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں محض انتخابات کے انعقاد کو جمہوریت سمجھا اور مانا جاتا ہے۔ اس ملک میں فوجی ڈکٹیٹر اپنے غیر آئینی اقتدار کو طول دینے کے لیے انتخابات کا سہارا لے چکے ہیں، سویلین حکمران انتخابی جیت کی طاقت پر ہر قسم کے غیر جمہوری اقدامات کرتے رہے ہیں، اور ماضی قریب میں سیاستدان ووٹ پاکستانی عوام سے مانگتے رہے اور اقتدار غیر ملکی قوتوں سے۔ آج بھی ملکی تاریخ کے کئی اہم فیصلے پاکستانی عوام سے مخفی ہیں اور ان پر مذاکرات دبئی، ریاض، لندن اور واشنگٹن میں ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں جس تسلسل سے سویلین اور فوجی حکومتوں نے عوام کو فیصلہ سازی کے عمل سے باہر رکھا ہے، اور جس شدت سے ذاتی یا گروہی مفادات کا پیچھا کیا ہے اس سے ملک میں صرف غیر جمہوری ہی نہیں بلکہ آمرانہ اقدار کو فروغ ملا ہے۔ بدقسمتی کی انتہا ہے کہ 74 سال گزر گئے، ہم نے حقیقی جمہوریت کے لئے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ نہ تعلیم پر خرچ کیا ہے اور نہ صحت پر، نہ آزادی دی اور نہ شعور و آگہی ہوئی اور نہ قانون کی برابری لائے۔ ہمارے سارے طور طریقے انتہائی انفرادی جبر کے ہیں لیکن نام جمہوریت رکھ دیا ہے۔
جارج برنارڈ شا نے کہا تھا جمہوریت ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت ہمیں ویسے ہی حکمراں ملتے ہیں جس کے ہم لائق ہوتے ہیں۔ لہذا اگر تبدیلی آ سکتی ہے تو اس کا آغاز عوام سے ہی ہو سکتا ہے۔ جب لوگ اپنی انفرادی اور خاندانی زندگیوں میں جمہوریت کو مستقل جگہ دیں گے تو ان کے حکمرانوں کو بھی جمہوریت کا پاس کرنا پڑے گا ہم نے جمہوریت کو روندتے ہوئے کبھی ایوبی نظام لائے کبھی یحیی کا کبھی ضیاء نے اپنا ایک نظام متعارف کرایا کبھی پرویز مشرف روشنی خیالی لے کر آیا اور اب اب قمر جاوید باجوہ کا ہائبرڈ سسٹم ان سب نظاموں اور سسٹموں نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا پاکستان اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب پاکستان میں حقیقی جمہوریت ہو گی اور عوام کے ووٹوں سے اصلی اور حقیقی نمائندے ملک چلائیں گے جب تک اپنے مفادات کے لیے کٹھ پتلیوں کو وزیراعظم اور صدر جیسے اہم منصب پر بٹھایا جائے گا تو ملک کے حالات ایسے ہی ہوں گے جیسے آج ہمارے ہیں اس لیے اب اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے بزرگوں کی قربانیوں کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح کے احکامات کے مطابق پاکستان کو ایک جمہوری ملک بنائیں گے جہاں پر ہر پاکستانی کے ووٹ کی عزت ہوگی آج 14 اگست کے دن ہم یہ عہد کرتے ہیں |
---|
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں