ٖ "ہم قلم کے وارث ہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے" وائس آف چکوال (VOC)
ہیڈ لائن

2:26 PM استاد کا احترام

ڈاکٹر زاہد عباس چوہدری 

پولیس کا اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ایسا ہم صحافی بھی کہتے ہیں اور پولیس سے بھی اکثر یہی سنتے آئے ہیں لیکن آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس میں سے چولی کون ہے اور دامن کون اور چولی دامن سے الجھتی ہے یا دامن چولی سے الجھ پڑتا ہے؟ پولیس کی طرف سے صحافیوں کے خلاف مقدمات بنانے کا سلسلہ شروع سے جاری ہے اور نہ جانے کب تک یونہی چلتا رہے گا لیکن یہ پولیس کے بڑے افسران کے لیے بھی باعث غور و فکر یے کہ چولی دامن کا یہ ٹاکرا کہیں زیادہ دور تک نہ نکل جائے پولیس کے "بادشاہ لوگ" جب مقدمہ بنانے پہ آتے ہیں تو چھینک مارنے اور کھانسنے پہ بھی ایسی کاروائی کر جاتے ہیں کہ اللہ معاف کرے بارہا کی آزمائش کے با وجود بھی اگر پولیس کے افسران یہ سمجھتے ہیں کہ صحافیوں کو سچ لکھنے سے باز رکھ سکیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے اب میرے خیال سے پولیس کے بڑوں کو اس غلط فہمی سے نکلنا پڑے گا کیونکہ پولیس گردی کا زمانہ نہیں رہا سوشل میڈیا کی طاقت ایسی ہے کہ چند منٹ میں بات دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے اس لیے پولیس کے بڑوں کو تھانوں میں بیٹھے ہوئے "بادشاہ لوگوں" کو کچھ خاص قسم کی ہدایات دینے کی ضرورت ہے اور نہیں تو پولیس کی طرف سے عرصہ دراز سے مارے جانیوالے چولی دامن کے "ڈائیلاگ" کا ہی خیال کر لیں کیونکہ چولی اترتی ہے تو دامن بھی کہیں کا نہیں رہتا! 


اٹک پولیس کی طرف سے تنویر اعوان سینئر صحافی پہ بنایا گیا جھوٹا مقدمہ "ریت کی دیوار ثابت" چونکہ تنویر اعوان سچے تھے اس لیے ان کی جیت ہوئی سچ کی فتح ہوئی اور جھوٹ کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ملک بھر سے صحافتی تنظیموں نے تنویر اعوان کے خلاف جھوٹے مقدمے پہ اپنی بھر پور آواز اٹھائی اور راولپنڈی اسلام آباد کے صحافیوں نے تو کمال ہی کر دکھایا اور اپنے مؤقف کو زبردست احتجاج کے بعد تسلیم کروا لیا,


عدالت میں پیشگی پہ معزز عدالت کے جج نے ایس ایچ او پہ سوال کیا کہ اس پہ تم نے توہین اہل بیت کی ایف آئی آر دی ہے مجھے بتاؤ کون سی توہیں ہوئی ہے ایسا چونکہ کوئی معاملہ موجود ہی نہیں تھا اس لیےایچ او عدالت کو کوئی واضح جواب نہ دے سکا اور آئیں بائیں شائیں کرنے لگا جس ہر معزز عدالت نے گرفتار شدہ صحافی تنویر اعوان کو رہا کرنے کے ساتھ ساتھ مقدمہ کو خارج کرنے کا حکم بھی جاری کر دیا یہاں اس امر کی وضاحت کی ضرورت ہے کہ صحافی مجالس اور ماتمی جلوسوں کی بھی کوریج کرتے ہیں اور نعت خوانی اور عید میلادالنبی کے پروگراموں کی بھی علامہ حضرات کی تقاریر ہوں یا علماء کرام کی تقریبات اور صحافت کسی بھی مسلک سے ہٹ کر اپنے فرائض سرانجام دینے کا نام ہے, 


اگر سوچا جائے اور حالات و واقعات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو صحافی ملک کا وہ طبقہ ہے جس کی زندگی خطرات سے پر اور دھمکیوں, دھونس اور حالات کی سنگینی کے گرد گھومتی ہے بڑے بڑے اینکرز اور اوپر سے آئے ہوئے "پیرا شوٹر صحافیوں" کو چھوڑ کر مقامی صحافت ہمیشہ سے ہی حالات کی ستم ظریفی اور مسائل کا شکار رہی ہے بڑی بڑی مراعات لینے والے صحافی سٹوڈیوز میں بیٹھ کے جب تبصرے کرتے ہیں تو دیکھنے والے ان سے متاثر ہو جاتے ہیں کہ یہ تو کوئی بڑے تیس مار خان ہیں اور توپ قسم کی چیز ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان بڑی کرسیوں پہ بیٹھے ہوئے یہ لوگ علاقائی صحافیوں کی معلومات اور رپورٹس کی بنا پر چلتے ہیں اور جو اصل کام کرنے والے ہیں ان کی نہ کوئی تنخواہ ہوتی ہے نہ کوئی مراعات,  صبح سے لے کر شام تک خطرات سے کھیلتے ہوئے اپنے ادارے کے لیے رپورٹس کے حصول کے لیے ان پہ جو الزامات لگتے ہیں یا انہیں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے ائیر کنڈیشن  سٹوڈیوز میں بیٹھ کر تبصرہ کرنے والے نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ اس بات کا ان کو احساس ہے اور سب سے بڑھ کر صحافت کی صفوں میں گھسی ہوئی کالی بھیڑیں صحافت اور صحافیوں کے مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں, ذرا سوچیے کہ ایک عام سے قصبے سے تعلق رکھنے والے صحافی کو کن کن مسائل کو سامنا کرنا پڑتا ہو گا,  علاقہ کے وڈیروں یا سیاسی کھڑپینچوں کی مخالفت,  علاقے کے تھانے میں بیٹھے ہوئے بادشاہ لوگوں کی مخالفت,  علاقہ کے جرائم پیشہ افراد, منشیات فروشوں, قبضہ گروپوں,  گراں فروشوں,  ذخیرہ اندازوں اور پتہ نہیں دیگر لا تعداد مافیاز کی مخالفت کا سامنا کرنا کیا آسان بات ہے؟


ان تمام تر حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر سے جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے اور گھر کے چولہے کو چلانے کے لیے پتہ نہیں ایک مقامی صحافی کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہونگے ایسے حالات میں مجھے بتائیں کہ یہ ملک کے چوتھے ستون کے وارث قابل تعریف اور قابل ستائش کیوں نہ ٹھہریں؟


بلا شبہ بہت ہی کوشش اور محنت کے با وجود پاکستان میں ملک کے چوتھے ستون کے اس پسے ہوئے طبقے کے ساتھ آج کے دور میں بھی ہمیشہ زیادتی کی گئی ہے اور میڈیا کو مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے دبانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن ہر عمل کے رد عمل کے طور پر اسے جتنا دبایا گیا میڈیا اتنی ہی تیزی سے اوپر آیا,  وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ملک بھر کی صحافتی تنظیموں کے درمیان اتحاد اور یگانگت کی فضا پیدا ہو اور صحافیوں کے حقوق اور آزادی صحافت کے لیے سب مل جل کر کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ صحافیوں کے مسائل حل نہ ہو سکیں ہمیں اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو نکالنا ہو گا اور اس مشن کو حقیقی طور پر ایک پیغمری مشن سمجھ کے چلانا ہو گا ہم قلم کے وارث ہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے,  ہم معاشرے کی رائے بنانے والے اور معاشرے کا حسن ہیں,  حکومت وقت کو بھی ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کہ کسی صحافی پہ پوری تحقیق کے بنا کوئی جھوٹا مقدمہ درج نہ ہو سکے اور اس حوالے سے قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے تا کہ بین الاقوامی سطح پر میڈیا کے حوالے سے پابندیوں کے معاملے میں پاکستان کو سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے ,  اللہ سب اہل قلم کے حوصلوں کو قائم دائم رکھے اور بھرپور طریقے پوری دیانت داری سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین! 

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

:) :)) ;(( :-) =)) ;( ;-( :d :-d @-) :p :o :>) (o) [-( :-? (p) :-s (m) 8-) :-t :-b b-( :-# =p~ $-) (b) (f) x-) (k) (h) (c) cheer
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top