باغی ٹی وی : لاہور کے لیڈی ولنگڈن اسپتال کے ہاسٹل سے لیڈی ڈاکٹر کی لاش برآمد ہوئی ہے۔گلگت بلتستان کی ڈاکٹر نسیم اعجاز چار سال سے ہاسٹل میں مقیم تھیں،پولیس کا کہنا ہے کہ 30 سالہ گائنی ڈاکٹر نسیم اعجاز کی لاش کمرہ نمبر 29 سے برآمد ہوئی، لیڈی ڈاکٹر مہوش کے مطابق نسیم اعجاز کی موت کا پتہ اس وقت چلا جب اس کے کمرے کا دروازہ کھولا گیا، نسیم کمرے میں منہ کے بل مردہ پڑی تھی۔
پولیس کے مطابق متوفیہ کی بہن نے ایک ڈاکٹرکوکال کی کہ بہن سے رابطہ نہیں ہوپا رہا لیڈی ڈاکٹر کی موت طبعی ہے تاہم لاش ڈیڈ ہاؤس منتقل کردی ہے۔مرحومہ کے ماموں حیدر علی نے قانونی کارروائی سے انکار کردیا ہے تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ مجسٹریٹ کی اجازت سے لاش ورثا کے حوالے کریں گے۔
دوسری جانب ہاسپٹل میں نسیم اعجاز کے ساتھی کولیگز کے مطابق اس نے اپنے سینئرز سے کئی مرتبہ درخواست کی کہ اسے چھٹی دی جائے کہ اسے بخار ہے اور سسپیکٹڈ پیریکارڈائیٹس (pericarditis)جس کی ٹریٹمنٹ اور لیبزکے لیےاسے ٹائم چاہیےاسکا مزاق آڑایا گیااسکو سنائی گئی کہ یہ تو کام چور ہےاس کے تو بہانے ہی نہیں ختم ہوتےجب کہ سب کو اس کا گرتا ہو وزن اور اسکے جسم اور چہرے پے نقاہت صاف نظر آ رہی تھی مگر ہمارے کچھ پروفیسرز اور سینئزز ابلیس سے بھی بد تر ہیں جو کہ سی ایم ہاوس اور سیکریٹریٹ سے آئے ہوے ہر فون کے آگے بچھ جاتے ہیں جبکہ اپنے جونئیرز اور ینگ ڈاکٹرز کے لیے وہ ایک جکاد سے کم نہیں-
مرحومہ ڈاکٹر نسیم اعجاز سے اخری لانگ کال گائنی میں بیماری کی حالت میں جمعرات کو کروائی گئی اور ہفتے کی رات یہ ڈاکٹر بیماری کی حالت میں مر گئی ۔یہ ایک موت نہین ہے یہ ایک قتل ہے اس کی ایف آئی آر ہر اس سینئیر کے خلاف کٹوانی چاہیے جس نے اس کا مزاق اڑایا اور اس کے علاج میں رکاوٹ ڈالی۔اس پروفیسر کو فورن ٹرمینیٹ کر دینا چاہہے جس نے اپنے جونئیر کے ساتھ اس طرح کا گھناؤنا سلوک کیا آئی جی پنجاب کو اس وارڈ کو وزٹ کرنا چاہیے اور اس پروفیسر کےخلاف خود مدعی بن کے ایف آئی آر کٹوانی چاہیے یہ سینئرز نہیں ہیں۔ یہ قاتل ہیں جونئیرز کے مستقبلوں کے اور ان کی جانوں کے۔
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.