ٖ طلاق ایک معاشرتی المیہ وائس آف چکوال (VOC)
ہیڈ لائن

2:26 PM استاد کا احترام

کالم۔۔۔رانگ نمبر۔۔

تحریر ۔ملک نذرحسین عاصم 
انسان کو ابتدائ زندگی گذارنے کے عادات و اطوار سکھانے میں گھر ایک اہم کردار ادا کرتا ہے کسی معاشرے میں اگر گھر جیسے ادارے کی اہمیت مستحکم نہ ہو تواس معاشرے کی بنیادیںکھوکھلی ہونا شروع ہوجاتی ہیں اسکی مثال یورپ ہمارے سامنے ہے افسوس کہ ہمارے معاشرے میں اس ادارے کی توڑ پھوڑ بڑی تیزی سے جاری ہےجسکی وجہ سے طلاق کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہاہے ایک دور تھا طلاق جیسے لفظ کو اداکرتے ہوئے بھی لوگ گھبراجاتے تھےلیکن اب یہ حال ہے کہ خاندان ہو یا خاندان سے باہر بھی شادی کرنے کے باوجود لوگ ایکدوسرے سے تعلق توڑتے وقت ذرابھی نہیں سوچتے حالیہ ایک سروے کے مطابق گذشتہ سال پچھلے دو سالوں کی نسبت تیس فیصد اضافہ ہوا ہے ۔گارڈین کورٹ میں دوردراز شہروں سے بھی لوگوں کی کثیر تعداد آتی ہے اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں زیادہ تر میاں بیوی کواکھٹاکرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔اس سوچ سے قطع نظر کہ خلع یاطلاق کے دعوی میں ڈگری جاری کرنے کے بعد پیداہونے والے محرکات کیا ہونگے یہ کوئ نہیں سوچتا کہ میاں بیوی کی علیحدگی کے بعد انکے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا اور وہ معاشرے میں کیسی زندگی گذارنے پر مجبور ہونگے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ علیحدگی اختیار کرنے والے جوڑوں کے بچے اکثر نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں باہر کے ممالک میں میاں بیوی کی علیحدگی کے بعد قانونی چارہ جوئ اسوقت تک ممکن ہی نہیں جب تک ایک صلح کروانے والے ادارے کا سرٹیفیکٹ ساتھ نہ لگایا جائے عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کیلئے بنیادی  ضرورت ہے کہ میاں بیوی صلح کروانے والے ادارے سے ہو کرآچکے ہوں لیکن ہمارے ہاں سارے کا سارا نظام ہی الٹا ہے یہاں آج تک کسی ادارے نے یہ احکامات جاری نہیں کئے کہ میاں بیوی صلح کروانے والے ادارے کے پاس جائیں یہاں تو جیسے ہی طلاق یا خلع کیلئے درخواست دی جاتی ہے جلدازجلد طلاق یا خلع دے کر دونوں میاں بیوی کو علیحدہ کر دیا جاتاہے ہمارا نظام میاں بیوی کو اکھٹا کرنے کی بجائے انہیں دور کرنے میں مددگار ہے طلاق کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جب عورت ظلم وتشدد سے تھک کر آواز اٹھاتی ہے تو شوہر سوچتاہے کہ اب یہ عدالتوں اور مختلف اداروں میں میرا ناک کٹوائے گی تب اپنی جان چھڑانے کیلئے آسان طریقے سے طلاق کے ذریعے اس سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔اکثر خواتین طلاق لینا ہی نہیں چاہتیں اور وہ ثالثی کونسل میں جاکر بھی کہہ دیتی ہیں کہ وہ طلاق لینا ہی نہیں چاہتی مگر دیگر افراد کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ طلاق کا حق تو مرد کے پاس ہے وہ اگر عورت کو نہ رکھنا چاہے اور اسکے برعکس عورت طلاق بھی نہ لینا چاہے تب بھی ہو جاتی ہے گویا کوئ ادارہ عورت کو تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہے ۔ تمام قانون ساز اداروں اور قانون سازی کے عمل میں اپنا اثر رسوخ رکھنے والے اداروں سے استدعا ہے کہ طلاق کے عمل کو اتنا آسان نہ رہنے دیں صرف ایک بندے کی مرضی سے منسوب کرکے طلاق دینا مناسب نہیں ہوگا کوئ ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے کہ ٹھوس وجوہات کی بنا پر ہی طلاق ہو سکے۔تاکہ ہنستے بستے گھر معمولی رنجش یا چھوٹے موٹے اختلافات پر اپنے بچوں کا مستقبل تباہ نہ کر سکیں اور جسقدر ممکن ہو طلاق کی شرح کو کم کرنے میں فعال کردار ادا کریں تاکہ مسائل میں کمی آسکے یہ مسائل صرف میاں بیوی تک ہی محدود نہیں یہ مسائل ہمارے بچوں کے مستقبل سے بھی وابستہ ہیں۔

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

:) :)) ;(( :-) =)) ;( ;-( :d :-d @-) :p :o :>) (o) [-( :-? (p) :-s (m) 8-) :-t :-b b-( :-# =p~ $-) (b) (f) x-) (k) (h) (c) cheer
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.

 
وائس آف چکوال (VOC) © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top